بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی نماز فوت ہوجانے کا حکم


سوال

میں آج بہت پریشانی میں مبتلا ہوں، کیوں کہ میں آج نمازِ جمعہ نہیں ادا کر سکا اور اُس کا وقت گزر چکا ہےاور اِس وقت میں نےنمازِ عصر ٹائم پر ادا کر لی ہے، لہٰذا میں بہت زیادہ پشیمانی اور کرب میں مبتلا ہوں، مہربانی فرما کر میری راہنمائی فرمائیں اور بتائیں میرے لیےکیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کسی عذر کے باعث  سائل نمازِ جمعہ اد انہیں کرسکااور اس کے وقت کے اندرنمازِ جمعہ کی جگہ ظہر کی نماز بھی ادا نہیں کی  ہے،نیزوہ صاحبِ ترتیب بھی نہیں ہے،تو اب وقت گزرنے کے بعدفقط ظہر کی نماز قضاء کرلے، باقی نماز کو اس کےوقت پر ادا نہ کرنے کا جو گناہ ہوا ہے،اس پر خوب توبہ استغفار کرے اور آئندہ نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کا پختہ عزم اور ارادہ کرلے۔

اور اگر سائل صاحبِ ترتیب  ہے، تو اسے چاہیے  تھا کہ پہلے ظہر کی قضا نماز پڑھتا اس کے بعد عصرکی وقتی نماز  ادا  کرتا، لیکن  اس نے ظہر  کی نماز  پڑھنے سے پہلے عصر کی نماز ادا کرلی ہے تو اب اگر سائل نے عصر ادا کرنے کے فوراً بعد یا پانچ وقتی نمازیں گزرنے سے پہلے  جمعہ کی جگہ ظہر کی قضا  نماز پڑھ  لی تو گزشتہ  تمام وقتی نمازیں  (یعنی جمعے کی عصر سے لے کر مزید پانچ وقتی نمازوں تک) دوبارہ پڑھے،کیوں کہ ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے،اور  اگر سائل نے جمعے کی جگہ ظہر کی نماز  پڑھے بغیر پانچ وقتی نمازیں ادا کرلی  ہوں تو   ترتیب ساقط ہوچکی ہے، اب وہ  صرف جمعہ کے بدلےمیں ظہر کی قضانماز پڑھ  لے۔

ملحوظ رہے کہ صاحبِ ترتیب  سے مراد وہ شخص ہے جس کے ذمہ کوئی قضا نماز نہ ہو یا پانچ نمازوں تک کی قضا اس کے ذمہ ہو خواہ وہ پانچ یا اس سے کم نمازیں نئی ہوں یا پرانی ، مسلسل ہوں یا متفرق ، یا نئی پرانی   مل کر ہوں اور خواہ  حقیقتًا قضا ہوں یا حکمًا.  (عمدۃ الفقہ ،ج:2،ص:347 ط:ادارہ مجددیہ)

فتح القدیر میں ہے:

"ومن ‌فاتتهم ‌الجمعة فصلوا الظهر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، ج:2، ص:65، ط: دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكذا أهل مصر ‌فاتتهم ‌الجمعة) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:57، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"الترتيب بين الفائتة والوقتية وبين الفوائت مستحق، كذا في الكافي حتى لا يجوز أداء الوقتية قبل قضاء الفائتة، كذا في محيط السرخسي. وكذا بين الفروض والوتر، هكذا في شرح الوقاية."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت ، ج:1، ص:121،ط :دارالفكر)

وفيه ايضا:

"ويسقط الترتيب عند كثرة الفوائت وهو الصحيح، هكذا في محيط السرخسي وحد الكثرة أن تصير الفوائت ستا بخروج وقت الصلاة السادسة وعن محمد - رحمه الله تعالى - أنه اعتبر دخول وقت السادسة، والأول هو الصحيح، كذا في الهداية."

(فتاوی عالمگیریہ ،  کتاب الصلاۃ، باب الحادی عشر فی قضاء الفوائت، ج:1، ص:123، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں