بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے دن انتقال کرجانے والے شخص کے حساب و کتاب کا نہ ہونے کا ثبوت اور جمع بین الصلاتین کا شرعی حکم


سوال

1:جمعہ کی دن یا جمعہ کی رات کو کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو قبر میں اس کا حساب کتاب ہوگا یا نہیں ؟

2:دو نمازیں ایک ساتھ پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ سعودیہ عرب میں بارش ہوتو دو نمازیں ایک ساتھ پڑھاتے ہیں،کیا مسافر بھی دو نمازیں ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے؟

جواب

1:بعض احادیث میں آتا ہےکہ  جس  مسلمان شخص کا جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو انتقال ہوجائے تو وہ قبر کے فتنہ اور آزمائش اور حساب و کتاب سے محفوظ رہتا ہے،اور اسے شہید کے برابر اجروثواب ملتا ہے،اسی لیے علماء نے جمعہ کے دن کے موت کو سعادت و خوش بختی والی موت قرار دیا ہے۔باقی قبر کی یہ آزمائش فقط جمعہ کے دن ہٹائی جاتی ہے یا تاقیامت تو اس کے بارے میں بعض علماء فرماتے ہیں کہ  صرف جمعہ کے دن یہ عذاب قبر اٹھا دیا جاتا ہے،اور بعض فرماتے ہیں کہ تاقیامت ان سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہےاوراللہ کی رحمت سے یہی امید رکھنی چاہیےکہ یہ  تاقیامت عذاب قبر سے محفوظ رہے گا اورہمیشہ راحت و آرام کے ساتھ رہے گا۔ اور اگر کوئی گناہ گار اور  غیر مسلم  رمضان المبارک میں مر جائے تو صرف ماہ مبارک کے احترام میں رمضان المبارک کے اختتام تک عذاب قبر سے محفوظ رہے گا،اور رمضان کے بعد پھر اسے عذاب ہوگا۔

2:دووقتی نمازوں کو ایک وقت میں ایک ساتھ جمع کرکے پڑھنا جائز نہیں ہے،اوریہ حکم عام ہےچاہے سفر میں ہو یا حضر میں دونوں صورتوں میں دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا جائز نہیں ہے،کیوں کہ نمازوں کے اوقات ازروئے شرع متعین و مختص ہیں،ہر ایک نماز کی ابتداء و اختتام کا وقت مقرر ہے،جس میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر کرنا جائز نہیں ہے،چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے :﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ (النساء:103)  ترجمہ: ’’بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے‘‘۔ البتہ حج کے موقع پر مزدلفہ میں عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء ، اور عرفہ میں ظہر کے وقت میں ظہر اور عصر  کی نماز جمع کرنا آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، اس لیے احناف کے نزدیک ان مواقع کے علاوہ کسی موقع پر نماز کو وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا یا بغیر عذر کے وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا ثابت نہیں ہے۔نیز ہمیں اپنے معاملات میں قرآن و سنت اور شریعت کو پیش نظر رکھنا چاہیے،عرب ہو یا عجم کسی کے لیے بھی کسی قوم کا عمل حجت نہیں ہے۔ جمع بین الصلاتین سے متعلق مزید تفصیل درج ذیل لنک پر موجود فتوی میں ملاحظہ کی جائے۔

دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا کیوں ناجائز ہے؟

مصنف ابن عبدالرزاق میں ہے:

"عن ابن شهاب، أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "من مات ليلة الجمعة، أو يوم الجمعة، برئ من فتنة القبر، أو قال: وقي فتنة القبر، وكتب شهيدا".

 عن عبد الله بن عمر وعن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "برئ من فتنة القبر."

(كتاب الجمعة، باب من مات يوم الجمعة، ج:3، ص:550، ط:دارالتاصيل)

قوت المغتدی علی جامع الترمذی للسیوطی میں ہے:

""ما من مسلم يموت يوم الجمعة، أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر".

قال الحكيم الترمذي في نوادر الأصول: " من مات يوم الجمعة فقد انكشف الغطاء عن أعماله عند الله؛ لأن يوم الجمعة لا تسجر فيه جهنم، وتغلق أبوابها، ولا يعمل سلطان النار ما يعمل في سائر الأيام، فإذا قبض الله عبدا من عبيده فوافق قبضه يوم الجمعة كان ذلك دليلا لسعادته، وحسن مآبه، وأنه لم يقبض في هذا اليوم العظيم إلا من كتب الله له السعادة عنده، فلذلك يقيه فتنة القبر لأن سببها إنما هو تمييز المنافق من المؤمن انتهى".قلت: ومن تتمة ذلك: أن من مات يوم الجمعة، أو ليلة الجمعة له أجر شهيد كما وردت به أحاديث، والشهيد، ورد النص بأنه لا يسأل، فكأن الميت يوم الجمعة، أو ليلتها على منواله."

(ابواب الجنائز، ج:1، ص:324، ط:جامعة ام القرى)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"قلت: ومن تتمة ذلك أن ‌من ‌مات ‌يوم ‌الجمعة له أجر شهيد، فكان على قاعدة الشهداء في عدم السؤال، كما أخرجه أبو نعيم في الحلية عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «‌من ‌مات ‌يوم ‌الجمعة أو ليلة الجمعة أجير من عذاب القبر، وجاء يوم القيامة وعليه طابع الشهداء» ". وأخرج حميد في ترغيبه عن إياس بن بكير أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " «‌من ‌مات ‌يوم ‌الجمعة كتب له أجر شهيد، ووقي فتنة القبر» ". وأخرج من طريق ابن جرير عن عطاء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ما من مسلم أو مسلمة يموت في يوم الجمعة أو ليلة الجمعة إلا وقي عذاب القبر وفتنة القبر، ولقي الله ولا حساب عليه، وجاء يوم القيامة ومعه شهود يشهدون له أو طابع» " وهذا الحديث لطيف صرح فيه بنفي الفتنة والعذاب معا. اهـ كلام السيوطي رحمه الله."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:3، ص:1021، ط:دارالفكر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

'' قال أهل السنة والجماعة: عذاب القبر حق وسؤال منكر ونكير وضغطة القبر حق، لكن إن كان كافراً فعذابه يدوم إلى يوم القيامة ويرفع عنه يوم الجمعة وشهر رمضان، فيعذب اللحم متصلاً بالروح والروح متصلاً بالجسم فيتألم الروح مع الجسد، وإن كان خارجاً عنه، والمؤمن المطيع لا يعذب بل له ضغطة يجد هول ذلك وخوفه، والعاصي يعذب ويضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة وليلتها، ثم لا يعود وإن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعةً واحدةً وضغطة القبر ثم يقطع، كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي من حاشية الحنفي ملخصاً."

 (كتاب الصلاة، باب الجمعة،ج:2، ص:165، ط:سعید)

وفيه ايضا:

"(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافا للشافعي، وما رواه  محمول على الجمع فعلا لا وقتا (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة) كما سيجيء."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:381، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں