بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی نماز کے لیے دو اذان کیوں دی جاتی ہے؟


سوال

جمعہ میں دو اذان کیوں دی جاتی ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمعہ کی ایک اذان ہوا کرتی تھی، اسی طرح حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں بھی جمعہ کے لیے  ایک ہی اذان ہوتی تھی اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل دوسری اذان کہلاتی ہے،  یعنی جو اذان  مؤذن امام کے سامنے کھڑے ہو کر دیتا ہے۔

پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں  مجمع بڑھ گیا تو ایک اور اذان کی ضرورت محسوس کی گئی، جس کے لیے انہوں نے  "زوراء" نامی مقام سے اذان دینے کا حکم دیا، اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل جمعہ کی پہلی اذان کہلاتی ہے،اور اس پر صحابہ میں سے کسی نے کوئی اشکال نہیں کیا، اس طرح اس اذان پر امت کا اجماع ہو گیا۔

جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی تابع داری  لازم ہے، اسی طرح احادیثِ  مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص خلفائے راشدین کی اتباع واقتدا  کا حکم دیاگیاہے، لہذا اجماعِ  صحابہ کی وجہ سے اس اذانِ  ثانی کااہتمام بھی لازم ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اذان سنتِ مؤکدہ ہے جو  واجب کے قریب اور دین کے شعائر میں سے ہے، اس لیے اس اذانِ  ثانی کو ترک کرنا خلافِ  سنت و اجماعِ صحابہ ہوگا۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن السائب بن يزيد، قال: «كان الأذان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وعمر، إذا خرج الإمام، وإذا أقيمت الصلاة، فلما كان عثمان زاد النداء الثالث على الزوراء»: «هذا حديث حسن صحيح»."

(ابواب الجمعة ، باب ما جاء فی اذان الجمعة جلد ۲ ص: ۳۹۲ ط: شرکة مکتبة و مطبعة مصطفي البابي الحلبي ، مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في شرح المنية. واختلفوا في المراد بالأذان الأول فقيل الأول باعتبار المشروعية وهو الذي بين يدي المنبر لأنه الذي كان أولا في زمنه - عليه الصلاة والسلام - وزمن أبي بكر وعمر حتى أحدث عثمان الأذان الثاني على الزوراء حين كثر الناس. والأصح أنه الأول باعتبار الوقت، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال."

(کتاب الصلوۃ ، باب الجمعة جلد ۲ ص: ۱۶۱ ط: دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405100171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں