بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فجر میں ایک رکعت میں سورہ جمعہ کا اور دوسری میں سورہ منافقون کا آخری رکوع پڑھنے سے سنت قرائت کی ادئیگی اور عدمِ ادائیگی کا حکم


سوال

جمعہ کے دن فجر کی نماز کی پہلی رکعت میں امام صاحب سورہ جمعہ کا آخری رکوع اور دوسری رکعت میں سورہ منافقون کا آخری رکوع پڑھ دیں تو قراءت کی سنیت ادا ہو گی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے دن سورۂ جمعہ اور سورۂ منافقون پڑھنا جمعہ کی نماز کی سنت ہے،فجر کی نماز کی سنت نہیں ہےاور عام حالات میں فجر کی نماز میں طوالِ مفصل(سورۂ حجرات سے لے کر سورۂ بروج تک) میں سے پہلی رکعت میں مقیم کے لیے  سورۂ فاتحہ کے علاوہ کم ازکم تیس چھوٹی آیات اور زیادہ سے زیادہ ساٹھ آیات پڑھنا اور دوسری رکعت میں فاتحہ کے علاوہ کم از کم بیس چھوٹی آیات اور زیادہ سے زیادہ تیس آیات پڑھنا سنت ہے،تاہم قراءت کی سنیت اسی میں منحصر نہیں،بلکہ اگر کوئی شخص کسی عذر کی بناء پر یا جماعت میں موجود افراد کی رعایت کرتے ہوئےفجر کی نماز میں طوالِ مفصل میں سے ہی تیس سے کم آیات کی تلاوت کرلے یاقصارِ مفصل(سورۂ بینہ سے لے کر سورۂ ناس تک) میں سے کوئی ایسی سورت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نماز میں پڑھی ہو،پڑھ لے تب بھی اس کی  قراءت کی سنت ادا ہوجائے گی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص فجر میں کسی عذر کی بناء پر یا مقتدیوں کی رعایت میں سورۂ جمعہ اور سورۂ منافقون کا صرف آخری،آخری رکوع پڑھےتو اس کی فجر کی قراءت کی سنت ادا ہو جائے گی،البتہ جب کوئی عذر در پیش نہ ہو یا مقتدیوں میں قراءت کا ذوق و شوق ہو تو ایسی صورت میں مسنون و معتاد قراءت کو ترک کرنے سے قراءت کی سنیت ادا نہ ہوگی۔

"سنن الترمذي"میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ يوم الجمعة في صلاة الفجر: تنزيل السجدة، وهل أتى على الإنسان."

(ص:١١٧،ج:١،أبواب الجمعة،‌‌باب ما جاء فيما يقرأ في صلاة الصبح يوم الجمعة،ط:قديمي)

"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"واختار في البدائع عدم التقدير، وأنه يختلف بالوقت والقوم والإمام.

والظاهر أن المراد عدم التقدير بمقدار معين لكل أحد وفي كل وقت، كما يفيده تمام العبارة، بل تارة يقتصر على أدنى ما ورد كأقصر سورة من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورة من قصاره عند ضيق وقت أو نحوه من الأعذار ... وتارة يقرأ أكثر ما ورد إذا لم يمل القوم، فليس المراد إلغاء الوارد ولو بلا عذر."

(ص:٥٤١،ج:١،کتاب الصلوۃ،فصل في القراءة،ط:ایج ایم سعید)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"وقدر القراءة في الفجر للمقيم قدر ثلاثين آية إلى ستين آية سوى الفاتحة في الركعة الأولى، وفي الثانية ما بين عشرين إلى ثلاثين...وهذا كله ليس بتقدير لازم بل يختلف باختلاف الوقت والزمان وحال الإمام والقوم فيه أنه ينبغي للإمام أن يقرأ مقدار ‌ما ‌يخف ‌على ‌القوم ولا يثقل عليهم بعد أن يكون على التمام."

(ص:٢٠٦،ج:١،کتاب الصلوۃ،فصل فی المقدار المستحب من القراءۃ،ط:دار الکتب العلمیة)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"ولو قرأ في ركعة من وسط سورة أو من آخر سورة وقرأ في الركعة الأخرى من وسط سورة أخرى أو من آخر سورة أخرى لا ينبغي له أن يفعل ذلك على ما هو ظاهر الرواية ولكن لو فعل ذلك لا بأس به."

(ص:٧٨،ج:١،کتاب الصلوۃ،الباب الرابع في صفة الصلاة،ط:دار الفکر،بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501102488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں