بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے خطبہ میں ’’ او یتبرک بغیرہ من نبی و ولی ۔۔۔ فعلیه الخسران والوبال ‘‘ کا جملہ پڑھنا


سوال

"من یشرك في ذاته و صفاته و عاداته و آیآ ته أو یتبرك بغیرہ من نبي و ولي و تقي و نقي و نسیم و حسین و جمیل و صغیر و كبير فعلیه الخسران و الوبال"، کیا یہ جملہ ہمارے عقیدے کے مطابق ہے اور جمعہ کے خطبے میں پڑھنا درست ہے؟

جواب

اهلِ  سنت والجماعت  كا مؤقف يه هے كه انبياءِ  كرام علیہم السلام،  بلكه اَنبياءِ كرام كے علاوه صحابه كرام رضوان الله عليهم اجمعين، تابعين، تبع تابعين، اور ديگر علماءِ امت، صلحاء، صوفياء اور بزرگانِ دين   رحمہم اللہ كي استعمال كرده  اشياء، ان كے كپڑے، ان كا جھوٹا پانی وغیرہ اس نیت سے اپنے استعمال میں لانا   یا اپنے پاس رکھنا کہ اِن اَشیاء کو ان اَولیاءِ کرام سے  ایک گونہ  نسبت حاصل ہے  اور  وہ خود خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں، اس لیے ان اشیاء کو ان جیسی دیگر چیزوں پر فضیلت حاصل ہے، اور انہیں استعمال کرنے سے اللہ تعالیٰ استعمال کرنے والےکے لیے خیراور نیک بختی کا ذریعہ بنادیں گے، یہ طریقہ اور طرزِ محبت اصطلاح میں ’’تبرّک‘‘ کہلاتا ہے، اور اَحادیث شریفہ کی روشنی میں یہ ایک جائز اور مستحسن کام ہے اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہے۔

سوال میں ذکر کردہ خطبہ میں مذکورہ عبارت ’’من یشرك في ذاته و صفاته و عاداته و آیآ ته أو یتبرك بغیرہ من نبي و ولي و تقي و نقي و نسیم و حسین و جمیل و صغیر و كبير فعلیه الخسران و الوبال ... الخ‘‘ میں چوں کہ اَنبیاءِ کرام علیہم السلام اور اَولیاءِ کرام رحمہم اللہ سے برکت حاصل کرنے والوں کے لیے ناکامی، خسارے اور وبال کی بد دعا کی گئی ہے، اور ’’تبرّک‘‘ کے عمل کو خلافِ شریعت بتایا گیا ہے جب کہ شرعی نصوص اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے تبرک بآثارِ الصالحین کا ثبوت ملتا ہے، اور کسی جائز اور مشروع عمل کو ناجائز سمجھنا اور اس کے عاملین کے لیے ہلاکت وبربادی اور خسارہ ونقصان کی بدعا کرنا خلافِ شرع اور اَہلِ سنت والجماعت کے عقیدے کے خلاف ہے؛ لہذا جمعہ کے خطبہ میں یہ جملے پڑھنا جائز نہیں ہے۔

 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:

" قال النووي: في الحديث التبرك بآثار الصالحين، ولبس ملابسهم، وجواز لبس الخاتم". (13/ 103ط:دار الفکر)

و فی شرح سنن ابن ماجه للسيوطي وغيره :

" وَ قَالَ الشَّيْخ: وَهَذَا الحَدِيث أصل فِي التَّبَرُّك بآثار الصَّالِحين ولباسهم، كَمَا يَفْعَله بعض مريدي المشائخ من لبس أقمصهم فِي الْقَبْر، وَالله أعلم، لمعات".

(ص: 105ط:قدیمی کتب خانه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں