بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے اجتماعات پر پابندی ہونے کی صورت میں گھروں میں جمعہ کا قیام


سوال

حکومت کے موجودہ فیصلے کے بعد (کہ جمعہ اور جماعت چند افراد تک محدود ہوں گے) کیا محلے میں ہر گھر میں چند افراد جمع ہوکر کسی دِین دار مستقل نمازی کو امام بنا کر جمعہ ادا کرسکتے ہیں؟  کیا یہ جائز ہے یا ظہر ادا کرنا ہوگی؟

جواب

اگر کسی ملک میں مساجد بالکلیہ بند ہوں یا بعض صحت مند افراد کو جمعہ کی نماز میں شرکت سے روک دیا جائے تو انہیں چاہیے کہ وہ  مساجد کے علاوہ جہاں چار یا چار سے زیادہ بالغ مرد جمع ہوسکیں اور نمازِ جمعہ ادا کرنے والوں کی طرف سے دوسرے لوگوں کی شرکت کی ممانعت نہ ہو، جمعہ قائم کرنے کی کوشش کریں، اگر گھر میں پڑھ رہے ہوں تو گھر کا مرکزی دروازہ کھلا رکھیں، تاکہ اگر کوئی پڑوسی نماز میں شریک ہونا چاہے تو شریک ہوسکے۔ باقی شہر، فنائے شہر یا قصبہ میں جمعہ کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہٰذا امام کے علاوہ کم از کم تین مرد مقتدی ہوں تو  بھی جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی؛ چناں چہ جمعہ کا وقت ہوجانے کے بعد پہلی اذان دے کر سنتیں ادا کریں، پھر دوسری اذان دی جائے اور امام خطبہ مسنونہ پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھا دے،  چاہے گھر میں ہوں یا کسی اور جگہ جمع ہو کر پڑھ لیں، عربی خطبہ اگر یاد نہ ہو تو  کوئی خطبہ دیکھ کر پڑھے، ورنہ عربی زبان میں حمد و صلاۃ اور قرآنِ پاک کی چند آیات پڑھ کر دونوں خطبے دے دیں۔ (امام کے بیٹھنے کے لیے اگر منبر موجود ہو تو بہتر، ورنہ کرسی پر بیٹھ جائے اور زمین پر کھڑے ہوکر خطبہ دے تو بھی جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی۔)
  اگر شہر یا فنائے شہر یا قصبہ میں چار  بالغ افراد جمع نہ ہوسکیں  یا کسی وجہ سے جمعہ قائم نہ ہوسکے تو ظہر کی نماز  تنہا پڑھیں۔

جمعہ کے مسنون خطبہ کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

جمعہ کا خطبہ

نیز  جمعے کے خطبہ میں مسنون تو یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی حمد و ثناء، درود شریف اور قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ ہوں، لیکن اگر کسی نے خطبہ جمعہ میں صرف سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھ لی تو بھی جمعہ کا خطبہ ادا ہو جائے گا؛ کیوں کہ جمعے کے خطبے کا رکن ’’ذکر اللہ‘‘ اس میں پایا جاتاہے۔

حلبی کبیری میں ہے:

"وفي الفتاوی الغیاثیة : لوصلی الجمعة في قریة بغیر مسجد جامع والقریة کبیرة  لها قری وفیها وال  وحاکم جازت الجمعة بنوا المسجد أو لم یبنوا … والمسجد الجامع لیس بشرط، ولهذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر". (ص؛551، فصل فی صلاۃ الجمعۃ، ط؛ سہیل اکیڈمی)

فتاوی شامی میں ہے:
"(و) السادس: (الجماعة) وأقلها ثلاثة رجال (ولو غير الثلاثة الذين حضروا) الخطبة (سوى الإمام) بالنص؛ لأنه لا بد من الذاكر وهو الخطيب وثلاثة سواه بنص {فاسعوا إلى ذكر الله} [الجمعة: 9]

(قوله: وأقلها ثلاثة رجال) أطلق فيهم فشمل العبيد والمسافرين والمرضى والأميين والخرسى لصلاحيتهم للإمامة في الجمعة، إما لكل أحد أو لمن هو مثلهم في الأمي والأخرس فصلحا أن يقتديا بمن فوقهما، واحترز بالرجال عن النساء والصبيان؛ فإن الجمعة لاتصح بهم وحدهم لعدم صلاحيتهم للإمامة فيها بحال، بحر عن المحيط (قوله: ولو غير الثلاثة الذين حضروا الخطبة) أي على رواية اشتراط حضور ثلاثة في الخطبة، أما على رواية عدم الاشتراط أصلاً أو أنه يكفي حضور واحد فأظهر (قوله: سوى الإمام) هذا عند أبي حنيفة ورجح الشارحون دليله، واختاره المحبوبي والنسفي، كذا في تصحيح الشيخ قاسم (قوله: بنص {فاسعوا} [الجمعة: 9]؛ لأن طلب الحضور إلى الذكر متعلقاً بلفظ الجمع وهو الواو يستلزم ذاكراً فلزم أن يكون مع الإمام جمع، وتمامه في شرح المنية". (2 / 151)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"( و منها الإذن العام )  وهو أن تفتح ابواب الجامع فيؤذن للناس كافة حتي ان جماعة لو اجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد علي أنفسهم و جمعوا لم يجز و كذلك السلطان إذا اراد أن يجمع بحشمه في داره فإن فتح باب الدار و أذن إذنا عاما جازت صلاته شهدها العامة أو لم يشهدوها كذا في المحيط". (الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ١/ ١٤٨، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے (2 / 151):
"(قوله: الإذن العام) أي أن يأذن للناس إذنًا عامًّا بأن لايمنع أحدًا ممن تصح منه الجمعة عن دخول الموضع الذي تصلى فيه، وهذا مراد من فسر الإذن العام بالاشتهار، وكذا في البرجندي إسماعيل، وإنما كان هذا شرطًا لأن الله تعالى شرع النداء لصلاة الجمعة بقوله: {فاسعوا إلى ذكر الله} [الجمعة: 9] والنداء للاشتهار، وكذا تسمى جمعة لاجتماع الجماعات فيها، فاقتضى أن تكون الجماعات كلها مأذونين بالحضور تحقيقًا لمعنى الاسم، بدائع".

وفیہ ایضا:

"( وكره ) تحريمًا ( لمعذور ومسجون ) ومسافر ( أداء ظهر بجماعة في مصر ) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضة، وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع، (وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة ) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة".  (2/157دارالفکر بیروت)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں