بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے دن تعطیل / چھٹی کا حکم


سوال

کیا شریعت میں جمعہ کے دن چھٹی منانا ثابت ہے، یا جمعہ کے دن کو چھٹی منانی چاہیے؟

جواب

اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کو تمام دنوں میں فضیلت بخشی ہے،  اور اسے سب دنوں سے اعلیٰ اور ارفع بنایا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے  ہر امت کے لیے ہفتہ میں ایک دن خاص عبادت کے لیے مقرر کیا، اور وہ دن جمعہ کا تھا،  لیکن پچھلی امتوں میں اس کی تعیین میں اختلاف ہوا اور  یہود نے اپنی خاص عبادت کے لیے  ”جمعہ“ کو چھوڑ کر ”ہفتہ“ کے  دن کو منتخب فرمایا، اور نصاریٰ نے ”اتوار“ کا دن منتخب فرمایا، اور مسلمانوں نے اللہ کے فضل اور اس کی راہ نمائی سے ”جمعہ“ کے دن کو منتخب کرلیا۔

جیسا کہ   حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: 

’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  ہم یوں تو سب سے آخر میں آئے ہیں،  لیکن قیامت کے دن سب پر سبقت لے جائیں گے،  فرق صرف اتنا ہے کہ ہر امت کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی،  جب کہ ہمیں بعد میں کتاب ملی،  پھر یہ جمعہ کا دن اللہ نے ان پر مقرر فرمایا تھا لیکن وہ اس میں اختلاف کا شکار ہوگئے،  چنانچہ اللہ نے ہماری اس (جمعہ کے دن) کی طرف رہنمائی فرمادی،  اب اس میں لوگ ہمارے تابع ہیں، چناں چہ یہودیوں کا اگلا دن (ہفتہ) ہے اور عیسائیوں کا پرسوں کا دن (ا توار) ہے‘‘۔

سنن النسائي (3 / 85):

’’عن أبي هريرة، وابن طاوس، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نحن الآخرون السابقون، بيد أنهم أوتوا الكتاب من قبلنا، وأوتيناه من بعدهم، وهذا اليوم الذي كتب الله عز وجل عليهم فاختلفوا فيه، فهدانا الله عز وجل له ـ يعني يوم الجمعة ـ فالناس لنا فيه تبع، اليهود غدًا والنصارى بعد غد»‘‘.

نیز   جمعہ کی اہمیت کے متعلق قرآن کریم میں مستقل ایک سورت، ”سورۂ جمعہ“ کے نام سے نازل ہوئی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [الجمعة: 9]

’’اے ایمان والو جب جمعہ کے لیے اذان کہی جائے تو تم اللہ کی یاد کی طرف چل پڑو،  اورخریدو فروخت چھوڑدیا کرو، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم کو کچھ سمجھ ہو‘‘۔

حدیث شریف میں ہے:

’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ”بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اس میں آدم ؑ پیدا ہوئے، اس دن جنت میں داخل کیے گئے اوراسی دن جنت سے نکالے گئے اور قیامت قائم نہیں ہوگی مگر جمعہ کے دن‘‘ ۔

صحيح مسلم (2 / 585):

"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة، فيه خلق آدم، وفيه أدخل الجنة، وفيه أخرج منها، ولا تقوم الساعة إلا في يوم الجمعة»".

ابتدا میں ذکر کردہ حدیثِ مبارک میں اس طرف بھی اشارہ ممکن ہے کہ مسلمان دیگر فرائض اور اَحکامِ خداوندی کی رعایت کے ساتھ ساتھ جب تک جمعے کے دن کی تعظیم کا حق ادا کرتے رہیں گے، اہلِ کتاب ان کے تابع رہیں گے۔ علاوہ ازیں بہت سی احادیث میں جمعہ کے فضائل اور اس کی خصوصیات مذکور ہیں، نیز سورۂ جمعہ کی مذکورہ آیت میں باری تعالی نے جمعہ کی اذان ہوتے ہی کاروبار بند کرکے جمعہ کے لیے سعی کا حکم فرمایا ہے۔

 نیز  احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن مخصوص اعمال واذکار، درود اور خاص سورتیں پڑھنے کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ سلفِ صالحین میں سے بہت سے بزرگانِ دین کا معمول جمعرات سے ہی جمعے کی تیاری کرنے کا تھا، اور عمومی ماحول یہی تھا کہ جمعے کی صبح سے ہی جامع مسجد میں تشریف لے جایا کرتے تھے، ان ہی وجوہات کی بنا پر فقہاء کرام نے جمعہ کے دن عام تعطیل کو مستحب قراردیا ہے، جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ  ’’زاد المعاد‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’بے شک یہ (جمعہ ) وہی دن ہے جس دن مستحب ہے کہ اپنے آپ کو اس میں عبادت کے لیے فارغ کردے، اس دن کا بقیہ ایام پر (خاص) شرف ہے تمام انواعِ عبادات کے متعلق خواہ وہ واجب ہوں یا مستحب، اللہ تعالٰی نے  ہر مذہب والوں کے لیے ایک دن مخصوص فرمایا جس میں وہ خود کو عبادت کے لیے فارغ کریں اورتمام دنیوی مصروفیات سے کنارہ کشی اختیار کریں، پس جمعہ کادن عبادت کا دن ہے اور یہ دیگر ایام کے مقابلے میں اس طرح ہے جیساکہ رمضان کامہینہ دیگر مہینوں کے مقابلے اور اس میں قبولیتِ دعا کا خاص وقت ہے جیسا کہ شبِ قدر کی حیثیت رمضان المبارک میں ۔۔۔الخ ‘‘ 

زاد المعاد في هدي خير العباد (1 / 386):

"أنه اليوم الذي يستحب أن يتفرغ فيه للعبادة، وله على سائر الأيام مزية بأنواع من العبادات واجبة ومستحبة، فالله سبحانه جعل لأهل كل ملة يومًا يتفرغون فيه للعبادة ويتخلون فيه عن أشغال الدنيا، فيوم الجمعة يوم عبادة، وهو في الأيام كشهر رمضان في الشهور، وساعة الإجابة فيه كليلة القدر في رمضان."

اگرچہ رحمۃ للعالمین ﷺ کی امت کی سہولت کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمعے کے پورے دن کاروبارِ زندگی بند رکھنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ نمازِ جمعہ سے فراغت کے بعد کسبِ حلال کی اجازت خود قرآنِ مجید میں مرحمت فرمائی، تاہم خیر القرون سے سلف کا معمول یہ رہا ہے کہ وہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی سے پہلے دنیاوی مشاغل میں بالکل بھی مشغول نہیں ہوتے، یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمعے کے دن دوپہر کا کھانا جمعے کے بعد ہی کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے، جب کہ باقی دنوں میں ان کا یہ معمول ظہر سے پہلے ہوتا تھا۔

محدث العصر، علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ جامعہ کی دار الافتاء سے جاری ایک فتوے کی تصدیق کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’بلاشبہ جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے ہر جہت سے قابلِ صد احترام ہے، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم تو مسجد میں صبح کی نماز پڑھ کر تا ختمِ صلاۃِ جمعہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے، اور دوپہر کا کھانا اور آرام بھی بعد نمازِ جمعہ ان کا معمول تھا۔ اور اگر ہفتہ میں کسی دن کی تعطیل ضروری ہے تو پھر جمعہ کا ہی دن اس کے لیے ہونا چاہیے، اور اسلامی نقطۂ نگاہ سے تو اتوار یا سینیچر کی تعطیل درست ہی نہیں ہے۔ ہاں! شرعًا کاروبار جمعہ کو ترک کرنا ضروری نہیں، اذانِ نمازِ جمعہ کے بعد ترک کرنے کا حکم ہے، جیسے حضرت مفتی صاحب نے تحریر فرمایا ہے۔ کوئی ایسا کاروبار کرنا جس سے نمازِ جمعہ کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو، وہ ناجائز ہے۔ واللہ اعلم‘‘

محمد یوسف بنوری (6 رمضان 1378ھ)

مذکورہ بالا حوالوں اور تفصیل سے جمعہ کے دن کی تعطیل کامستحب ہونا ظاہر ہے کہ یہ دن عبادات کے ذریعہ تقرب الی اللہ  حاصل کرنے کادن ہے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202201460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں