بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی نماز کی قضاء نہیں ہوتی پھر بھی یہ فرض کیوں ہے؟


سوال

اگر جمعہ فرض ہوتا تو اس کی عدم ادائیگی پر قضاء لازم آتی،  یعنی کسی آدمی کا جمعہ رہ جاتا تو وہ جمعہ کی قضا بھی کرتا، حالاں کہ ایسا کوئی نہیں کرتا، بلکہ  ظہر پڑھتا ہے؛ لہٰذا  اس سے  معلوم ہوا کہ جمعہ فرض نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت کی اصطلاح میں  وہ عمل فرض کہلاتا ہے جو کسی ایسی دلیل سے ثابت ہو جو دلیل قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ  ہو، جیسا کہ علامہ شامی فرماتے ہیں:

"أن الأدلة السمعية أربعة: الأول قطعي الثبوت والدلالة كنصوص القرآن المفسرة أو المحكمة والسنة المتواترة التي مفهومها قطعي ... فبالأول يثبت الفرض والحرام."

(كتاب الطهارة، أركان الوضو، ١/ ٩٥، ط: سعيد)

ترجمہ:" ادلۂ سمعیہ چار قسم کے ہیں: پہلا وہ جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہو، جیسے قرآن کے وہ نصوص جو مفسّر یا محکم ہیں، اور سنتِ متواترہ جن کے مفہوم قطعی ہیں ۔۔۔ تو پہلی قسم کی دلیل سے فرض اور حرام ثابت ہوتے ہیں۔"

اور جمعہ کا ثبوت ایسی ہی قطعی دلیل سے ہے، جیسا کہ الدر المختار شرح تنویر الابصار میں علامہ حصکفی ؒ فرماتے ہیں:

"(هي فرض) عين (يكفر جاحدها) لثبوتها بالدليل القطعي كما حققه الكمال وهي فرض مستقل آكد من الظهر."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ٢/ ١٣٦، ط: سعيد)

ترجمہ: "وہ (یعنی جمعہ) فرضِ عین ہے، اس کے انکار کرنے والے کی تکفیر کی جائے گی؛ کیوں کہ یہ دلیلِ قطعی سے ثابت ہے جیسا کہ  الکمال نے تحقیق کی ہے اور وہ (یعنی جمعہ) ایک مستقل فرض ہے جس کی تاکید ظہر سے بھی زیادہ ہے۔"

اس عبارت کی تشریح میں الدر المختار کے شارح علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں:

"(قوله بالدليل القطعي) وهو قوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا}، وبالسنة والإجماع (قوله كما حققه الكمال) وقال بعد ذلك وإنما أكثرنا فيه نوعا من الإكثار لما نسمع عن بعض الجهلة أنهم ينسبون إلى مذهب الحنفية عدم افتراضها، ومنشأ غلطهم قول القدوري ومن صلى الظهر يوم الجمعة في منزله ولا عذر له كره وجازت صلاته وإنما أراد حرم عليه وصحت الظهر لما سيأتي (قوله آكد من الظهر) أي لأنه ورد فيها من التهديد ما لم يرد في الظهر، من ذلك قوله - صلى الله عليه وسلم - من ترك الجمعة ثلاث مرات من غير ضرورة طبع الله على قلبه. رواه أحمد والحاكم وصححه، فيعاقب على تركها أشد من الظهر ويثاب عليها أكثر ولأن لها شروطا ليست للظهر تأمل"

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ٢/ ١٣٦، ط: سعيد)

ترجمہ:" [قوله بالدليل القطعي]  اور وہ  قطعی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:  {يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا...الآية}   {ترجمہ: اے ایمان والو  جب جمعہ کے روز نمازِ جمعہ کے لیے اذان کہی جایا کرے تو تم اللہ کی یاد (یعنی نماز وخطبہ) کی طرف فوراً چل پڑا کرو۔۔۔}، اور (اسی طرح جمعہ کی فرضیت نبی کریم ﷺ کی) سنت سے اور اجماع سے (بھی)  ثابت ہے۔ 

[قوله كما حققه الكمال] اور علامہ کمال نے اس کے بعد فرمایا :"اور ہم نے اس جگہ قدرے زیادہ تفصیل اس وجہ سے کی ہے کہ ہم نے بعض جاہلوں سے سنا ہے کہ وہ مذہبِ حنفی کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے، اور اُن (جاہلوں) کی غلطی کا منشا امام قدوریؒ کا یہ قول ہے کہ' جس نے بلاعذر جمعہ کے دن  اپنے گھرمیں ظہر کی نماز پڑھی تو اس کی نماز درست ہے'، حالاں کہ امام قدوریؒ کی مراد اس سے یہ ہے کہ ایسے شخص پر یہ کام کرنا تو حرام ہے، تاہم اس کی نماز درست ہوجائے گی۔"

[قوله آكد من الظهر] یعنی اس لیے  کہ جمعہ کی نماز چھوڑنے پر وہ  وعید وارد ہوئی ہے جو ظہر کی نماز کے بارے میں وارد  نہیں ہوئی، من جملہ ان میں سے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے: "جس کسی نے بلا عذر تین مرتبہ جمعہ کی نماز چھوڑ دی، اللہ تعالیٰ اُس کے دل پر مہر لگا دے گا"، اس حدیث کو امام احمد ؒ نے اور امام حاکمؒ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم ؒ نے اس کی تصحیح فرمائی ہے، لہٰذا جمعہ کی نماز چھوڑنے پر ظہر کی نماز سے زیادہ سخت سزا دی جائے گی اور جمعہ کی نماز پڑھنے پر ظہر کی نماز سے زیادہ ثواب ملے گا؛ اس لیے کہ ظہر کے لیے وہ شرائط نہیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں۔"

باقی رہی یہ بات کہ جمعہ کی نماز کی قضا کیوں نہیں ہوتی؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن وقت کا اصل فريضہ تو ظہر ہی ہے، لیکن اس کے بدلے میں جمعہ کی نماز ادا کی جاتی ہے، تاہم اگر کسی سے جمعہ کی نماز چھوٹ جائے تو پھر وقت کا اصل فريضہ لوٹ کر آجاتا ہے اور وہ بھی اگر وقت کے اندر نہ پڑھا جائے تو پھر اُس کی قضا لازم ہوتی ہے ۔جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:

"والحاصل: أن فرض الوقت عندنا الظهر، وعند زفر الجمعة كما صرح به في الفتح وغيره فيما سيأتي حتى الباقاني في شرح الملتقى، وأما ما نقله عنه فلعله ذكره في شرحه عن النقاية وبما ذكرناه ظهر ضعفه."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ٢/ ١٣٧، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100610

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں