بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی نماز کے بعد ظہر پڑھنا فرض ہے یا نہیں؟


سوال

عام حالات میں جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے ساتھ ظہر کے فرض پڑھنا فرض ہے یا نہیں؟

جواب

جمعہ کے دن (شہر، مضافاتِ شہر اور بڑی بستی میں) ظہر کے وقت میں صرف جمعہ کی نماز (دو رکعت) پڑھنا ہی فرض ہے، اگر کوئی جمعہ کی شرائط موجود ہوتے ہوئے جمعہ کی نماز پڑھ لے تو اس کے بعد ظہر کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی کی جمعہ کی جماعت نکل جائے اور قریب میں ملنے کی امید نہ ہو تو پھر اس کے ذمہ ظہر پڑھنا فرض ہوگا، (کیوں کہ جمعے کی نماز کے لیے جماعت شرط ہے، جس کی کم سے کم تعداد امام سمیت چار بالغ مرد ہے۔) اسی طرح اگر مکمل وقت نکل جائے تو بھی جمعہ کی قضا نہیں ہوگی، بلکہ ظہر کی قضا کرنی ہوگی۔

اور جہاں (گاؤں یا جنگل وغیرہ میں) جمعے کا قیام درست نہیں ہے، وہاں جمعے کے دن ظہر کے وقت میں ظہر کی چار رکعات فرض ہیں، وہاں (بھی) جمعہ اور ظہر دونوں کو جمع کرنا درست نہیں ہے۔

واضح رہے کہ عوام میں بعض یہ سمجھتے ہیں کہ جمعے کی دو رکعت فرض کے بعد جو چار رکعات ادا کی جاتی ہیں، یہ ظہر کے چار فرض ہیں، اور اس کے بعد دو رکعت سنت ہیں، یہ بات درست نہیں ہے، بلکہ یہ چار رکعات جمعے کے بعد  کی سنتِ مؤکدہ ہیں، جیساکہ جمعے سے پہلے چار رکعات سنتِ مؤکدہ ہیں، اور جمعے کے بعد چار رکعات سنتِ مؤکدہ کے بعد دو رکعت راجح قول کے مطابق سنتِ غیر مؤکدہ ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 136):
"وهي فرض مستقل آكد من الظهر  وليست بدلاً عنه كما حرره الباقاني معزيًا لسري الدين بن الشحنة. وفي البحر: وقد أفتيت مرارًا بعدم صلاة الأربع بعدها بنية آخر ظهر خوف اعتقاد عدم فرضية الجمعة وهو الاحتياط في زماننا، وأما من لايخاف عليه مفسدة منها فالأولى أن تكون في بيته خفية.

(قوله: وليست بدلاً عنه إلخ) تصريح بمفهوم قوله: وهي فرض مستقل لكن هذا مخالف لما قدمه المصنف في بحث النية من باب شروط الصلاة. وعبارته مع الشرح: ولو نوى فرض الوقت مع بقائه جاز إلا في الجمعة؛ لأنها بدل إلا أن يكون عنده في اعتقاده أنها فرض الوقت كما هو رأي البعض فتصح. اهـ. وكتبنا هناك عن شرح المنية أن فرض الوقت عندنا الظهر لا الجمعة ولكن قد أمر بالجمعة لإسقاط الظهر، ولذا لو صلى الظهر قبل أن تفوته الجمعة صحت عندنا خلافًا لزفر والثلاثة وإن حرم الاقتصار عليها اهـ.
والحاصل: أن فرض الوقت عندنا الظهر، وعند زفر الجمعة كما صرح به في الفتح وغيره فيما سيأتي حتى الباقاني في شرح الملتقى، وأما ما نقله عنه فلعله ذكره في شرحه عن النقاية وبما ذكرناه ظهر ضعفه". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144108200141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں