بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی دوسری اذان کا آغاز کب ہوا؟


سوال

جمعہ کے دن دوسری اذان کا آغاز سب سے پہلے کب اور کہاں ہوا؟

جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمعہ کی ایک اذان ہوا کرتی تھی، اسی طرح حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں بھی جمعہ کے لیے  ایک ہی اذان ہوتی تھی اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل دوسری اذان کہلاتی ہے،  یعنی جو اذان  مؤذن امام کے سامنے کھڑے ہو کر دیتا ہے۔

پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں  مجمع بڑھ گیا تو ایک اور اذان کی ضرورت محسوس کی گئی، جس کے لیے انہوں نے  "زوراء" نامی مقام سے اذان دینے کا حکم دیا، اور یہ وہ اذان ہے جو آج کل جمعہ کی پہلی اذان کہلاتی ہے، اور اس پر صحابہ میں سے کسی نے کوئی اشکال نہیں کیا، اس طرح اس اذان پر امت کا اجماع ہو گیا۔

جس طرح رسول اللہ ﷺکے اَحکام کی تابع داری  لازم ہے، اسی طرح احادیثِ  مبارکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بالخصوص خلفائے راشدین کی اتباع واقتدا  کا حکم دیاگیاہے، لہذا اجماعِ  صحابہ کی وجہ سے اس اذانِ  ثانی کااہتمام بھی لازم ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اذان سنتِ مؤکدہ ہے جو  واجب کے قریب اور دین کے شعائر میں سے ہے، اس لیے اس اذانِ  ثانی کو ترک کرنا خلافِ  سنت و اجماعِ صحابہ ہوگا۔ نیز نمازِ جمعہ کے لیے جانے کا حکم پہلی اذان کے فوراً بعد لازم ہوتاہے، اس کے بعد خرید و فروخت کرنا اور ایسا عمل کرنا جو جمعہ کی تیاری میں مخل ہو، درست نہیں ہے۔

اگر سائل کی مراد اذانِ ثانی سے وقت کے اعتبار سے دوسری اذان ہے جو منبر کے سامنے دی جاتی ہے، تو سابقہ سطور میں واضح ہوچکا ہے کہ یہ اذان رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے ہی چلی آرہی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 161):

(ووجب سعي إليها وترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزرا (بالأذان الأول) في الأصح وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان. وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريمًا (ويؤذن) ثانيًا (بين يديه) أي الخطيب.
(قوله: في الأصح) قال في شرح المنية. واختلفوا في المراد بالأذان الأول فقيل الأول باعتبار المشروعية وهو الذي بين يدي المنبر لأنه الذي كان أولا في زمنه عليه الصلاة والسلام و زمن أبي بكر وعمر حتى أحدث عثمان الأذان الثاني على الزوراء حين كثر الناس. والأصح أنه الأول باعتبار الوقت، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال. اهـ. والزوراء بالمد اسم موضع في المدينة.

ارشاد الفحول للشوکانی میں ہے:

البحث السابع: حكم إجماع الصحابة:إجماع الصحابة حجة بلا خلاف....وقد ذهب إلى اختصاص حجية الإجماع بإجماع الصحابة داود الظاهري، وهو ظاهر كلام ابن حبان في صحيحه، وهذا هو المشهور عن الإمام أحمد بن حنبل فإنه قال في رواية أبي داود عنه: الإجماع أن يتبع ما جاء عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وعن أصحابه، وهو في التابعين مخير.وقال أبو حنيفة: إذا أجمعت الصحابة على شيء سلمنا. (1/217)

العرف الشذی میں ہے:

وأيضاً في الحديث : "عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين ..." إلخ وفي شرح هذا الحديث قولان ، قيل : إن سنة الخلفاء والطريقة المسلوكة عنهم أيضاً سنة وليس ببدعة وقيل: إن سنة الخلفاء في الواقع سنة النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وإنما ظهرت على أيديهم ، ويمكن لنا أن نقول : إن الخلفاء الراشدين مجازون في إجراء المصالح المرسلة  وهذه المرتبة فوق مرتبة الاجتهاد ، وتحت مرتبة التشريع ، والمصالح المرسلة : الحكم على اعتبار علة لم يثبت اعتبارها من الشارع ، وهذا جائز للخلفاء الراشدين لا للمجتهدين. (2/69)

وفیہ ایضاً :

أقول : إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة؛ لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :"عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين".(2/294) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں