بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے لیے حاکمِ وقت کی شرط


سوال

میں بیرونِ ملک رہائش پذیر ہوں، آپ کا فتویٰ پڑھا جس میں لکھا ہے کہ اگر انتظامیہ کی طرف سے جمعہ اور پنج وقتہ نماز پر پابندی ہو تو گھروں میں جمعہ قائم کریں، کیا اس صورت میں اذنِ عام کی شرط کا اعتبار نہیں ہوگا؟ نیز حاکمِ وقت کی اجازت کے بغیر جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہوگی؟ اسلامی اور غیرمسلم ملک دونوں کے اعتبار سے اس شرط کی شرعی حیثیت واضح کیجیے کہ امام کی اجازت اقامتِ جمعہ کے لیے کس حد تک ہے؟ اور کس وجہ سے ہے؟ اور اذنِ عام کا کیا مطلب ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اسلامی ممالک میں جمعہ کے قیام کے لیے حاکمِ وقت کی اجازت انتظامی معاملات کی وجہ سے ضروری ہے؛ تاکہ لوگوں میں یہ اختلاف نہ ہو کہ کون جمعہ کی نماز پڑھائے گا؛ کیوں کہ جمعہ کا خطبہ دینا اور نماز پڑھانا بہت بڑا شرف ہے،ممکن ہے کہ بعض لوگ خود جمعہ پڑھانا چاہیں اور بعض اپنی پسند سے کسی کو جمعہ پڑھانے کے لیے آگے کرنا چاہیں، جس سے باہمی اختلافات پیدا ہوجائیں۔ چنانچہ حاکمِ وقت کی اجازت ان اختلافات سے بچنے کے لیے ضروری ہے، حاکم وقت کی اجازت پر جمعہ کا واجب ہونا یا واجب نہ ہونا موقوف نہیں ہے۔ جمعہ کے وجوب کے لیے شرائط  یہ  ہیں :

۱۔ شہر یا قصبہ یا اس کا فنا(مضافات) ہونا۔

۲۔  ظہر کا وقت ہونا۔

۳۔  ظہر  کے وقت میں نمازِ  جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا۔

۴۔ جماعت یعنی امام کے علاوہ  کم از   کم تین بالغ مردوں کا خطبے کی ابتدا سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود رہنا۔

۵۔اذنِ عام (یعنی نماز قائم کرنے والوں کی طرف سے نماز میں آنے والوں کی اجازت) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔

اذنِ عام سے مراد یہ ہے کہ جہاں جمعہ قائم کیا جارہا ہو، وہاں جمعہ پڑھنے والوں کی طرف سے لوگوں کو نماز کے لیے آنے کی ممانعت نہ ہو، کسی عارض کی وجہ سے ممانعت ہو تو وہ اذنِ عام میں مخل نہیں ہے۔

غیر مسلم ممالک میں مسلمان آپس میں کسی کو مقرر کرکے اسے جمعہ کی نماز کا امام بنا دیں، حاکمِ وقت کی اجازت کی ضرورت نہیں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق و منحة الخالق و تكملة الطوري (2 / 157):

"أن الإمام إذا منع أهل المصر أن يجمعوا لم يجمعوا كما أن له يمصر موضعًا كان له أن ينهاهم، قال الفقيه أبو جعفر: هذا إذا نهاهم مجتهدًا بسبب من الأسباب، وأراد أن يخرج ذلك المصر من أن يكون مصرًا، أما إذا نهاهم متعنتًا أو إضرارًا بهم فلهم أن يجمعوا على رجل يصلي بهم الجمعة، ولو أن إمامًا مصّر مصرًا ثمّ نفر الناس عنه لخوف عدو أو ما أشبه ذلك، ثم عادوا إليه فإنهم لايجمعوا إلا بإذن مستأنف من الإمام، كذا في الخلاصة. ودل كلامهم أن النائب إذا عزل قبل الشروع في الصلاة ليس له إقامتها؛ لأنه لم يبق نائبًا، لكن شرطوا أن يأتيه الكتاب بعزله أو يقدم عليه الأمير الثاني، فإن وجد أحدهما فصلاته باطلة، فإن صلى صاحب شرط جاز؛ لأنّ عمالهم على حالهم حتى يعزلوا، كذا في الخلاصة. وبه علم أن الباشا بمصر إذا عزل فالخطباء على حالهم، ولايحتاجون إلى إذن جديد من الثاني إلا إذا عزلهم، وقيدنا بكونه علم العزل قبل الشروع؛ لأنه لو شرع ثم حضر وال آخر فإنه يمضي في صلاته كرجل أمره الإمام أن يصلي بالناس الجمعة، ثم حجر عليه وهو في الصلاة لايعمل حجره؛ لأن شروعه صحّ، وإن حجر عليه قبل الشروع عمل حجره".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 152):

"و هو يحصل بفتح أبواب الجامع للواردين، كافي، فلايضر غلق باب القلعة لعدو أو لعادة قديمة؛ لأنّ الإذن العام مقرر لأهله، وغلقه لمنع العدو لا المصلي، نعم لو لم يغلق لكان أحسن، كما في مجمع الأنهر معزيًا لشرح عيون المذاهب، قال: وهذا أولى مما في البحر والمنح فليحفظ".

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 261):

"فأما إذا لم يكن إمامًا بسبب الفتنة أو بسبب الموت ولم يحضر وال آخر بعد حتى حضرت الجمعة ذكر الكرخي أنه لا بأس أن يجمع الناس على رجل حتى يصلي بهم الجمعة."

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144107200970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں