بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے دن کی فجر میں سورۂ الم سجدہ وسورۂ دہر، اور جمعہ کی نماز میں سورۂ اعلی وسورۂ غاشیہ پڑھنے کا معمول بنانے کا حکم


سوال

جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۂ  الم سجدہ اور سورۂ دہر  کا معمول بنا لینا کیسا ہے ؟ نیز جمعہ کی نماز میں سورۂ اعلی اور سورۂ  غاشیہ کا معمول بنا لینا کیسا ہے؟ ہمارے امام صاحب ہر جمعہ کو یہی سورتیں   پڑھتے ہے،  کیا ان کا یہ معمول صحیح ہے ؟

جواب

جمعہ کے دن فجر کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۂ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دہر  پڑھنا مسنون اور مستحب ہے،  اسی طرح  جمعہ کی نماز میں  پہلی رکعت میں سورۂ اعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۂ غاشیہ،  یا پہلی میں سورۂ جمعہ اور دوسری میں سورۂ منافقون ، یا پہلی میں سورۂ جمعہ اور دوسری میں سورۂ غاشیہ  تلاوت کرنا مسنون ہے، لیکن اس کی عادت اور  ایسے معمول بنا لینا  کہ  ان کے علاوہ کوئی سورت پڑھے ہی نہیں، درست نہیں، بلکہ مکروہ ہے۔

لہٰذا مذکورہ امام صاحب نے اگر اس طور پر ان سورتوں کا معمول بنالیا ہے کہ اس کے علاوہ وہ کبھی کوئی سورت پڑھتے ہی نہیں ہیں، تو یہ درست نہیں، امام صاحب کو چاہیے کہ وہ کبھی کبھی ان کو ترک کرکے دوسری سورتیں بھی پڑھا کریں تاکہ عوام یہ نہ سمجھنے لگے  کہ جمعہ  کی فجر اور جمعہ کی نماز میں یہی سورتیں پڑھنا فرض ہیں۔ اور اگر امام صاحب نے مذکورہ سورتوں کا معمول اس طور پر بنایا ہے کہ اکثر اوقات یہ سورتیں پڑھتے ہیں، لیکن کبھی کبھی ترک بھی کردیتے  ہیں، تو یہ درست ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب، حدثنا سليمان (وهو ابن بلال) عن جعفر، عن أبيه، عن ابن أبي رافع؛ قال: استخلف مروان أبا هريرة على المدينة  وخرج إلى مكة فصلى لنا أبا هريرة الجمعة  فقرأ بعد سورة الجمعة في الركعة الآخرة: إذا جاءك المنافقون، قال فأدركت أبا هريرة حين انصرف،  فقلت له: إنك قرأت بسورتين كان علي بن أبي طالب يقرأ بهما بالكوفة. فقال أبو هريرة: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ بهما يوم الجمعة."

(كتاب الجمعة، باب ما يقرأ في صلاة الجمعة، ٢/ ٥٩٧، الرقم: ٨٧٧، ط: مطبعة عيسى البابي)

وفيه اىضاً:

"وحدثنا عمرو الناقد. حدثنا سفيان بن عيينة عن ضمرة بن سعيد، عن عبيد الله بن عبد الله؛ قال: كتب الضحاك بن قيس إلى النعمان بن بشير: يسأله: أي شيء قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة، سوى سورة الجمعة؟ فقال: كان يقرأ: هل أتاك."

(كتاب الجمعة، باب ما يقرأ في صلاة الجمعة، ٢/ ٥٩٨، الرقم: ٨٧٨، ط: مطبعة عيسى البابي)

وفيه أيضاً:

"حدثنا يحيى بن يحيى وأبو بكر بن أبي شيبة وإسحاق. جميعا عن جرير. قال يحيى: أخبرنا جرير عن إبراهيم بن محمد ابن المنتشر، عن أبيه، عن حبيب بن سالم مولى النعمان بن بشير، عن النعمان بن بشير؛ قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ  في العيدين وفي الجمعة  بسبح اسم ربك الأعلى، وهل أتاك حديث الغاشية. قال: وإذا اجتمع العيد والجمعة  في يوم واحد، يقرأ بهما أيضا في الصلاتين."

(كتاب الجمعة، باب ما يقرأ في صلاة الجمعة، ٢/ ٥٩٨، الرقم: ٨٧٨، ط: مطبعة عيسى البابي)

وفيه أيضاً:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة. حدثنا عبدة بن سليمان عن سفيان، عن مخول بن راشد، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقرأ في صلاة الفجر، يوم الجمعة: الم تنزيل السجدة، وهل أتى على الإنسان حين من الدهر. وأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقرأ، في صلاة الجمعة، سورة الجمعة والمنافقين."

(كتاب الجمعة، باب ما يقرأ في يوم الجمعة، ٢/ ٥٩٩، الرقم: ٨٧٩، ط: مطبعة عيسى البابي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌ولا ‌يتعين شيء من القرآن لصلاة على طريق الفرضية) بل تعين الفاتحة على وجه الوجوب (ويكره التعيين) كالسجدة و  {هل أتى}  لفجر كل جمعة، بل يندب قراءتهما أحيانا.

قال عليه في الرد: (قوله على طريق الفرضية) أي بحيث لا تصح صلاة بدونه كما يقول الشافعي في الفاتحة (قوله ويكره التعين إلخ) هذه المسألة مفرعة على ما قبلها لأن الشارع إذا لم يعين عليه شيئا تيسيرا عليه كره له أن يعين، وعلله في الهداية بقوله: لما فيه من هجر الباقي وإيهام التفضيل (قوله بل يندب قراءتهما أحيانا) قال في جامع الفتاوى: وهذا إذا صلى الوتر بجماعة، وإن صلى وحده يقرأ كيف شاء اهـ وفي فتح القدير: لأن مقتضى الدليل عدم المداومة لا المداومة على العدم كما يفعله حنفية العصر، فيستحب أن يقرأ ذلك أحيانا تبركا بالمأثور، فإن لزوم الإيهام ينتفي بالترك أحيانا، ولذا قالوا: السنة أن يقرأ في ركعتي الفجر بالكافرون والإخلاص. وظاهر هذا إفادة المواظبة، إذ الإيهام المذكور منتف بالنسبة إلى المصلي نفسه اهـ ومقتضاه اختصاص الكراهة بالإمام ... ونازعه في البحر ... وأقول: حاصل معنى كلام هذين الشيخين بيان وجه الكراهة في المداومة وهو أنه إن رأى ذلك حتما يكره من حيث تغيير المشروع وإلا يكره من حيث إيهام الجاهل، وبهذا الحمل يتأيد أيضا كلام الفتح السابق: ويندفع اعتراضه اللاحق فتدبر."

(كتاب الصلاة، فصل في القراءة، ١/ ٥٤٤، ط: سعيد)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

"(سوال ٨٠) جمعہ کے روز فجر کی نماز میں امام صاحب پہلی رکعت میں الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دہر پڑھتے ہیں، مقتدیوں میں سے چند لوگوں کو اس سے گرانی ہوتی ہے، امام صاحب کو کہا گیا کہ اتنی طویل نماز نہ پڑھائیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ مسنون ہے، اور دوسروں کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں، تو کیا ان کی بات صحیح ہے؟ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں یہ سورتیں پڑھنا چاہیے؟ بینوا توجروا۔

(الجواب) جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الم سجدہ اور سورۂ دہر پڑھنا مسنون اور مستحب ہے، مگر اس پر دوام ثابت نہیں ہے، اس لیے امام کو چاہیے کہ مواظبت نہ کرے، گاہے گاہے پڑھے۔"

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ والعیدین، ٦/ ١٠٦، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں