بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کا خطبہ سننے کا حکم


سوال

 کیا جمعہ کا خطبہ سننا لازمی ہے؟

جواب

جمعہ کی نماز کا خطبہ سننا واجب ہے، اس لیے جمعہ کی دوسری اذان (جس کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے) سے پہلے پہلے مسجد میں پہنچ جانے کا اہتمام ضروری ہے؛ کیوں کہ جمعہ کی نماز کے لیے جتنا جلدی آیا جائے اتنا زیادہ ثواب ملتا ہے، چناں چہ حدیث شریف میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے مقرر ہوتے ہیں جو لوگوں کے نام ان کے مرتبوں کے مطابق لکھتے ہیں جو کوئی پہلے آتا ہے اس کا نام پہلے پھر جو کوئی بعد میں آتا ہے اس کا اس کے بعد،  اور جب امام (خطبہ کے لیے) آتا ہے تو وہ فہرستیں لپیٹ کر توجہ سے خطبہ سنتے ہیں، پس سب سے پہلے جمعہ کے لیے آنے والا اونٹ قربانی کرنے والے کی مانند ہے، پھر اس کے بعد والا گائے قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد آنے والا مینڈھا قربان کرنے والے کی مانند ہے، پھر اس کے بعد والے کو مرغی اور اس کے بعد والے مرغی کا انڈا صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے، پھر جب امام خطبہ دینے کے لیے نکل آئے تو فرشتے اپنے صحیفوں کو لپیٹ کر خطبہ سننے لگ جاتے ہیں‘‘۔

ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ :

 ’’جو اس کے بعد آئے (یعنی جب امام خطبہ کے لئے نکل چکا ہو) تو وہ بس اپنا فرض ادا کرنے کے لیے آیا‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص جمعہ کا خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد آتا ہے فرشتے اس کی حاضری ہی نہیں لگاتے ہیں، اور ایسا شخص جو خطبہ شروع ہونے کے بعد آتا ہے یا سرے سے خطبہ سنے ہی نہیں صرف جمعہ کی نماز پڑھے تو اگرچہ اس کی نماز کا فرض تو ذمہ سے اتر جائے گا، لیکن جمعہ کی نماز کے اضافی ثواب سے وہ محروم رہے گا؛ لہٰذا کوشش کرنی چاہیے کہ جتنی جلدی ہوسکے جمعہ کی نماز کے لیے مسجد پہنچنا چاہیے، آخری درجہ یہ ہے کہ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد جمعہ کی تیاری اور جمعہ کے لیے روانگی کے علاوہ کسی دوسرے کام میں نہ لگا جائے اور کم از کم جمعہ کی دوسری اذان سے پہلے مسجد میں پہنچنا لازم ہے۔

جب خطبہ شروع ہوجائے تو تمام حاضرین کا خطبہ کو سننا واجب ہے، خواہ امام کے نزدیک بیٹھے ہوں یا دورہوں، اگر دور ہونے کی وجہ سے آواز نہ آرہی ہو تب بھی خاموش بیٹھنا ضروری ہے اوراس دوران کوئی بھی ایسا کام کرنا جو خطبہ  سننے میں مخل ہو مکروہِ تحریمی ہے، کھانا پینا، بات چیت کرنا، چلناپھرنا، سلام کرنا یاسلام کاجواب دینا یاتسبیح پڑھنا یاکسی کو شرعی مسئلہ بتانا جیساکہ نماز میں ممنوع ہے، اسی طرح بوقتِ خطبہ بھی ممنوع ہے، خطبہ شروع ہوجانے کے بعد سنتیں یا نوافل پڑھنا ممنوع ہے، لیکن اگر سنت یا نفل پہلے سے پڑھ رہے تھے اس دوران خطبہ شروع ہوجائے تو راجح یہ ہے کہ سنتِ مؤ کدہ تو پوری کرلے اور نفل میں دو رکعت پر سلام پھیرلے۔

صحيح البخاري (2/ 11):

’’ حدثنا آدم، قال: حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن أبي عبد الله الأغر، عن أبي هريرة [ص:12]، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا كان يوم الجمعة وقفت الملائكة على باب المسجد يكتبون الأول فالأول، ومثل المهجر كمثل الذي يهدي بدنة، ثم كالذي يهدي بقرة، ثم كبشا، ثم دجاجة، ثم بيضة، فإذا خرج الإمام طووا صحفهم، ويستمعون الذكر».‘‘

(سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (2/ 192):

"حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ مَلَائِكَةٌ يَكْتُبُونَ النَّاسَ عَلَى قَدْرِ مَنَازِلِهِمْ، الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا الصُّحُفَ، وَاسْتَمَعُوا الْخُطْبَةَ، فَالْمُهَجِّرُ إِلَى الصَّلَاةِ كَالْمُهْدِي بَدَنَةً، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَمُهْدِي بَقَرَةٍ، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَمُهْدِي كَبْشٍ" حَتَّى ذَكَرَ الدَّجَاجَةَ وَالْبَيْضَةَ. زَادَ سَهْلٌ فِي حَدِيثِهِ: "فَمَنْ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ فَإِنَّمَا يَجِيءُ بِحَقٍّ  إِلَى الصَّلَاةِ" .

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6/ 172):

’’ والمعنى: لأن النبي صلى الله عليه وسلم، أخبر أن الملائكة تكتب من جاء في الساعة الأولى وهو كالمهدي بدنة، ثم من جاء في الساعة الثانية، ثم في الثالثة، ثم في الرابعة، ثم في الخامسة، وفي رواية النسائي: السادسة، فإذا خرج إمام طووا الصحف ولم يكتبوا بعد ذلك. ومعلوم أن النبي، صلى الله عليه وسلم، كان يخرج إلى الجمعة متصلا بالزوال، وهو بعد انقضاء الساعة السادسة، فدل على أنه لا شيء من الفضيلة لمن جاء بعد الزوال، ولأن ذكر الساعات إنما كان للحث على التبكير إليها والترغيب في فضيلة السبق وتحصيل الصف الأول وانتظارها والاشتغال بالتنفل والذكر، ونحو ذلك، وهذا كله لا يحصل بالذهاب بعد الزوال، ولا فضيلة لمن أتى بعد الزوال لأن النداء يكون حينئذ، ويحرم التخلف بعد النداء.‘‘

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6/ 229):

’’ قوله: (المهجر) أي: المبكر إلى المسجد. قوله: (يهدي: أي: يقرب) . وقد استوفينا معناه في: باب فضل الجمعة، لأنه روى عن أبي هريرة قريبا من هذا الحديث عن عبد الله بن يوسف عن مالك عن سمي عن أبي صالح السمان عن أبي هريرة، رضي الله تعالى عنه.

ذكر ما يستفاد منه: فيه: الإنصات إلى الخطبة وهو مطلوب بالاتفاق. وفي (التوضيح) : والجديد الصحيح من مذهب الشافعي أنه لا يحرم الكلام ويسن الإنصات، وبه قال عروة بن الزبير وسعيد بن جبير والشعبي والنخعي والثوري وداود، والقديم أنه يحرم، وبه قال مالك والأوزاعي وأبو حنيفة وأحمد، رحمهم الله. وقال ابن بطال: استماع الخطبة واجب وجوب سنة عند أكثر العلماء، ومنهم من جعله فريضة، وروي عن مجاهد، أنه قال: لا يجب الإنصات للقرآن إلا في موضعين: في الصلاة والخطبة. ثم نقل عن أكثر العلماء أن الإنصات واجب على من سمعها ومن لم يسمعها، وأنه قول مالك، وقد قال عثمان: للمنصت الذي لا يسمع من الأجر مثل ما للمنصت الذي يسمع. وكان عروة لا يرى بأسا بالكلام إذا لم يسمع الخطبة. وقال أحمد: لا بأس أن يذكر الله ويقرأ من لم يسمع الخطبة. وقال ابن عبد البر: لا خلاف علمته بين فقهاء الأمصار في وجوب الإنصات لها على من سمعها.

واختلف فيمن لم يسمعها. قال: وجاء في هذا المعنى خلاف عن بعض التابعين، فروي عن الشعبي وسعيد ابن جبير والنخعي وابن بردة: أنهم كانوا لا يتكلمون والإمام يخطب إلا في قراءة القرآن في الخطبة خاصة، لقوله تعالى: {فاستمعوا له وأنصتوا} (الأعراف: 204) . وفعلهم مردود عند أهل العلم، وأحسن أحوالهم أنهم لم يبلغهم الحديث في ذلك، وهو قوله صلى الله عليه وسلم: (إذا قلت لصاحبك أنصت. .) الحديث، لأنه حديث انفرد به أهل المدينة، ولا علم لمتقدمي أهل العراق به، وقال ابن قدامة: وكان سعيد بن جبير وإبراهيم بن مهاجر وأبو بردة والنخعي والشعبي يتكلمون والحجاج يخطب. انتهى. وقال أصحابنا: إذا اشتغل الإمام بالخطبة ينبغي للمستمع أن يجتنب ما يجتبه في الصلاة لقوله عز وجل: {فاستمعوا إليه وأنصتوا} (الأعراف: 204) . وقوله صلى الله عليه وسلم: (إذا قلت لصاحبك أنصت. .) الحديث، فإذا كان كذلك يكره له رد السلام وتشميت العاطس.‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 158):

’’ (إذا خرج الإمام) من الحجرة إن كان وإلا فقيامه للصعود شرح المجمع (فلا صلاة ولا كلام إلى تمامها) وإن كان فيها ذكر الظلمة في الأصح (خلا قضاء فائتة لم يسقط الترتيب بينها وبين الوقتية) فإنها لا تكره سراج وغيره لضرورة صحة الجمعة وإلا لا، ولو خرج وهو في السنة أو بعد قيامه لثالثة النفل يتم في الأصح ويخفف القراءة. 

(وكل ما حرم في الصلاة حرم فيها) أي في الخطبة خلاصة وغيرها فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف بل يجب عليه أن يستمع ويسكت (بلا فرق بين قريب وبعيد) في الأصح محيط ولا يرد تحذير من خيف هلاكه لأنه يجب لحق آدمي، وهو محتاج إليه والإنصات لحق الله - تعالى، ومبناه على المسامحة وكان أبو يوسف ينظر في كتابه ويصححه والأصح أنه لا بأس بأن يشير برأسه أو يده عند رؤية منكر والصواب أنه يصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - عند سماع اسمه في نفسه، ولا يجب تشميت ولا رد سلام به يفتى وكذا يجب الاستماع لسائر الخطب كخطبة نكاح وخطبة عيد وختم على المعتمد. وقالا: لا بأس بالكلام قبل الخطبة وبعدها  ... (ووجب سعي إليها وترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزرا (بالأذان الأول) في الأصح وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان. وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريمًا.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں