ہمارے یہاں رمضان المبارک میں الوداعی جمعہ کے موقع پر خطبہ الوداعی پڑھتے ہیں، نیز اس کے فضائل بکثرت بتاتے ہیں، کیا یہ درست ہے یا نہیں ؟
رمضان المبارک کے آخری جمعے کی تیاری اور آخری جمعہ بطور ’’جمعۃ الوداع‘‘ منانا نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء کرام سے ثابت نہیں ہے، حضور ﷺ رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو بیدار رہ کر عبادت میں گزارتے تھے، پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے، لیکن آخری جمعے کے لیے خاص تیاری کرنا یا خاص عبادت کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔
نیز ’’الوداع والفراق والسلام یا شهر رمضان‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے خطبۃ الوداع پڑھنا حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، نہ ہی اس کی خاص فضیلت ہے، بلکہ اس کو اکابر اہلِ فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے۔
ابوالحسنات حضرت مولانا عبد الحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے ’’مجموعۃ الفتاوی‘‘ اور ’’خلاصۃ الفتاوی ‘‘ (329/4) کے حاشیہ میں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے ’’فتاوی رشیدیہ‘‘ (ص: 123) میں، اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ’’امداد الفتاوی‘‘ (685/1)میں، اورحضرت مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے ’’فتاوی دارالعلوم دیوبند‘‘ (96/5) میں اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ نے ’’فتاوی محمودیہ‘‘ مطبع ڈابھیل (296/8)، مطبع میرٹھ (416/12) میں، اور مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے ’’امداد المفتیین‘‘ (ص: 404) میں بد عت اور مکروہ لکھا ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202820
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن