بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے خطبے میں خلفاء راشدین اور اہلِ بیت کے نام عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور سے شروع ہوئے


سوال

جمعہ کے خطبے میں خلفاء راشدین اور اہلِ  بیت کے جو نام لیے جاتے ہیں ، (ایک) امام صاحب نے یہ سب نام نہیں لیے معلوم کرنے پر انھوں نے فرمایا کہ یہ سنت نہیں ہے؟ راہ نمائی فرمائیں؟

جواب

جمعے کے لیے کوئی خاص خطبہ مقرر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا، درود شریف، قرآنی آیات واحادیث مبارکہ، ذکر الٰہی، وعظ ونصیحت اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تذکرے پر مشتمل کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتاہے۔ جمعہ کے خطبے میں  خلفاءِ راشدین اور اہل بیت رضوان اللہ عنہم اجمعین کا تذکرہ تابعی جلیل حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور (یعنی دورِ تابعین)سے چلا آرہا ہے، حضرت عمر بن عبدا لعزیز رحمہ اللہ جمعہ کے خطبے میں چاروں خلفاء اور اہل بیت کے نام لیتے تھے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں زیادہ افراط وتفریط پایا جاتا تھا،  روافض حضرات شیخین و حضرت عثمان رضی اللہ عنہم  پر طعن وتشنیع  کرتے تھے تو  دوسری طرف  اہلِ بیت کو  خطبوں میں برا بھلا  کہا جاتا تھا،  اس کے ازالے کے لیے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مسلمانوں کے بڑے اجتماع میں خلفاءِ راشدین اور اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم   کی عظمت دلوں میں  بٹھانے کے لیے ان کا تذکرہ خیر شروع فرمایا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ راشد ہیں جن کے دور میں خلفاء راشدین کے دور کی یاد تازہ ہوتی ہےجو کہ ایک مستحب عمل ہے گو کہ یہ سنت نہیں ہے،اس لیئے امام صاحب کی بات درست ہے،لیکن  چونکہ بغض صحابہ وبغض خلفاء کے زہریلےاثرات کی معاشرے میں آج بھی  کمی نہیں، لہذا اسلاف اور اکابرین کا معمول یہی ہے کہ خطبہ میں خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کا ذکر فرماتے ہیں اور یہی بہتر ہے،اگران کی اتباع میں  کوئی  جمعے کے خطبے میں حضرات خلفاء راشدین اور اہل بیت عظام کے نام لے لے تو جائز ہے، اور اگر کوئی کبھی کبھار چھوڑ دےتو بھی اسے برا بھلا نہیں کہنا چاہیے؛ کیونکہ یہ سنت مؤکدہ اور لازمنہیں ہے۔

علامہ ابن امیر الحاج مالکی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

وأما ترضي الخطيب في خطبته عن الخلفاء من الصحابة وبقية العشرة وباقي الصحابة وأمهات المؤمنين وعترة النبي - صلى الله عليه وسلم - رضي الله عنهم أجمعين - فهو من باب المندوب لا من باب البدعة وإن كان لم يفعله النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا الخلفاء بعده ولا الصحابة - رضي الله عنهم - لكن فعله عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - لأمر كان وقع قبله وذلك أن بعض بني أمية كانوا يسبون بعض الخلفاء من الصحابة - رضي الله عنهم أجمعين - على المنابر في خطبتهم، فلما أن ولي عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - أبدل مكان ذلك الترضي عنهم. وقد قال مالك - رضي الله عنه - في حقه هو إمام هدى وأنا أقتدي به.

(المدخل، المؤلف: أبو عبد الله محمد بن محمد بن محمد العبدري الفاسي المالكي الشهير بابن الحاج (المتوفى: 737هـ) فصل في فرش السجادة على المنبر، ج: 2، صفحہ: 270، ط: دار التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں