بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں جمعہ قائم کرنا


سوال

میں جموں کشمیر ڈوڈہ سے ہوں ،ہمارے یہاں دو جمعہ ہوتے ہیں،ایک مسجد میں ،ایک مدرسہ کے ہال میں ۔مدرسہ میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے جمعہ شروع ہوا تھا ابھی تک جمعہ ہو رہا ہے ۔اب کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں(مدرسہ میں) جمعہ نہیں ہو گا ۔صورتحال اس طرح ہےیہاں پربینک اور تحصیل اور پولیس سٹیشن اور SDM office بھی ہے اور یہاں تقریباً لوگوں کے روز مرہ کی ضروریات میسر ہےکیا دونوں جگہ جمعہ ہو گا ؟اور جمعہ کے لیے کتنی آبادی ہونی چاہیے ؟آبادی میں غیر مسلم بھی شامل ہوں گے ؟اور جمعہ کی جماعت میں کتنے لوگ ہونے چاہئیں؟

جواب

اگر مذکورہ علاقے میں پہلے سے شرائط کے پائے جانے کی وجہ سے جمعہ کی نماز جاری تھی اور لاک ڈاؤن میں اسی علاقے میں مسجد کے ساتھ مدرسہ میں بھی جمعہ کی نماز قائم کی جارہی تھی تو دونوں مقامات پر ان حالات میں نماز کی ادائیگی درست تھی،البتہ اب اگر مسجد میں گنجائش موجو دہو توتمام افرادکو وہیں جمعہ کی نماز ادا کرنی چاہیے، مدرسہ میں جمعہ کی نماز ادا کرنے سے نماز ادا ہوجائے گی البتہ مسجد کا ثواب حاصل نہ ہوگا۔ 

 جمعہ یا عیدین کی نماز قائم کرنے کے لیے مصر یا فناء مصر کا ہونایا ایسے بڑے گاؤں کا ہونا ضروری ہے کہ جس کی مجموعی آبادی کم از کم دو ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہو ،اور روز مرہ کی ضروریات کے لیے بازار ہو جس میں تمام ضروریات میسر ہوں ، لہذا اگر کسی گاؤں کی آبادی کم از کم دوڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہو اس میں ضروریات زندگی کا سامان مل جاتا ہو ،تب بھی ایسی جگہ جمعہ و عیدین کی نماز قائم کرنا فرض ہے ۔

آبادی کی مذکورہ بالا تعداد میں علاقے کے مستقل رہائشی تمام باشندے مسلم وغیرمسلم شامل ہیں۔

جماعت کے لیے  امام کے علاوہ کم ازکم تین عاقل بالغ افراد موجود ہوں تو   نمازِ جمعہ کی ادائیگی درست ہے۔ جمعے کی جماعت کے لیے تین بالغ مرد مقتدیوں کا ہونا کافی ہے۔ یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔ 

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"جمعہ کا ایک اہم مقصد اظہار شوکت ہےجو بڑی جمعیت کے ساتھ ایک جگہ ادا کرنے سے زیادہ واضح طور پر حاصل ہوتا ہے بلا ضرورت جگہ جگہ جمعہ کرنے سے یہ مقصد زیادہ حاصل نہیں ہوتا،اس لئے یہ طریقہ ناپسند ہے۔"

(با ب صلاۃ الجمعہ،ج6 ،ص190،فاروقیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.......أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصليبهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.

وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.وأما تفسير توابع المصر فقد اختلفوا فيها روي عن أبي يوسف أن المعتبر فيه سماع النداء إن كان موضعا يسمع فيه النداء من المصر فهو من توابع المصر وإلا فلا......وروى ابن سماعة عن أبي يوسف كل قرية متصلة بربض المصر فهي من توابعه وإن لم تكن متصلة بالربض فليست من توابع المصر، وقال بعضهم: ما كان خارجا عن عمران المصر فليس من توابعه، وقال بعضهم: المعتبر فيه قدر ميل وهو ثلاثة فراسخ، وقال بعضهم: إن كان قدر ميل أو ميلين فهو من توابع المصر وإلا فلا، وبعضهم قدره بستة أميال، ومالك قدره بثلاثة أميال، وعن أبي يوسف أنها تجب في ثلاثة فراسخ، وعن الحسن البصري أنها تجب في أربعة فراسخ، وقال بعضهم: إن أمكنه أن يحضر الجمعة ويبيت بأهله من غير تكلف تجب عليه الجمعة وإلا فلا وهذا حسن"۔

(کتاب الصلوۃ ، فصل بیان شرائط الجمعة جلد ۱ ص :۲۶۰ ط : دارالکتب العلمیة)

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله: والجماعة وهم ثلاثة) أي شرط صحتها أن يصلي مع الإمام ثلاثة فأكثر؛ لإجماع العلماء على أنه لا بد فيها من الجماعة، كما في البدائع، وإنما اختلفوا في مقدارها فما ذكره المصنف قول أبي حنيفة ومحمد، وقال أبو يوسف: اثنان سوى الإمام؛ لأنهما مع الإمام ثلاثة، وهي جمع مطلق؛ ولهذا يتقدمهما الإمام ويصطفان خلفه، ولهما أن الجمع المطلق شرط انعقاد الجمعة في حق كل واحد منهم وشرط جواز صلاة كل واحد منهم ينبغي أن يكون سواه فيحصل هذا الشرط ثم يصلي، ولايحصل هذا الشرط إلا إذا كان سوى الإمام ثلاثة؛ إذ لو كان مع الإمام اثنان لم يوجد في حق كل واحد منهم الشرط بخلاف سائر الصلوات؛ لأن الجماعة فيها ليست بشرط، كذا في البدائع".

(ج:2،ص:161،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504102365

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں