بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ اور وتر کے احکام


سوال

1۔ جمعہ کی نماز کے فرض اور سنت کی ترتیب اور کتنی رکعات ہیں؟

2۔جمعہ قضا ہوجائے تو کیا کرے؟

3۔ وتر کی نماز کی کیفیت بتادیں۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ جمعہ میں کل بارہ رکعتوں کا ثبوت ملتا ہے، جمعہ کے خطبہ سے پہلے چار رکعت سنتِ  مؤکدہ، خطبہ کے بعد جمعہ کی دو رکعت فرض، پھر جمعہ کی دو رکعت فرض کی ادائیگی کے بعد چھ رکعت  یعنی چار رکعت ایک سلام کے ساتھ سنت مؤکدہ، اور دو رکعت سنتِ زائدہ  ہیں، پڑھنے کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے چار رکعت سنت پڑھنی ہیں، پھر دو رکعت، اور یہ  احادیثِ نبویہ اور صحابۂ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔

2۔ اگر کسی کی جمعہ کی نماز نکل جائے اور دوسری مساجد میں بھی نہ ملےتو ظہر کا وقت باقی ہونے کی صورت میں  اسے تنہا ظہر کی مکمل نماز (فرائض اور سنتیں) پڑھنی چاہیے، اور اگر ظہر کا وقت بھی ختم ہوچکا ہو تو اسے ظہر کی چار رکعت فرض قضا پڑھنی چاہیے۔

3۔  واضح رہے کہ نصوص سے احکام  استنباط کرنے کے لیے مجتہدینِ کرام میں سے ہر ایک  مجتہدکے الگ الگ اصول ہیں، جب کسی مسئلے کے متعلق دلائل مختلف ہوں تو ہر مجتہد اپنے اصول کی بنا پر کسی دلیل کو ترجیح دیتا ہے، وتر پڑھنے کی کیفیت کے متعلق وارد  احادیث مبارکہ چوں کہ  مختلف    اور متعارض ہیں اور  ائمہ کرام نے اپنے اپنے اصولوں کے مطابق دلائل کو ترجیح دے کر کسی ایک طریقے کو اختیار کیا ہے، احناف  کے نزدیک  تین رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کی حدیث راجح ہے اور یہی سنت ہے۔

 اس حوالے سے امام نسائی رحمہ اللہ  نے  ”سنن نسائی“  میں سند کے ساتھ حضرت ابی بن کعب  رضی اللہ عنہ کی روایت درج کی ہے  : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں ”سبح اسم ربک الاعلی“، دوسری رکعت میں ”قل یا ایها الکافرون“ اور تیسری رکعت میں ”قل هو الله احد“پڑھتے تھے اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام فرماتے تھے“ ۔ اسی پر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عمر،حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہم اور دیگر حضرات کا عمل رہا ہے۔

وتر پڑھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی دو رکعت معمول کے مطابق ادا کریں اور دوسری رکعت کے قعدے میں تشہد پڑھ کر سلام پھیرے بغیر فوراً تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوجائیں،سورتِ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر تکبیر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھا کر دوبارہ باندھ لیں اور دعائے قنوت پڑھیں،اس کے بعد باقی نماز معمول کے مطابق پوری کریں مذکورہ طریقہ احادیث سے ثابت ہے اور وہ احادیث سند کےلحاظ سے بھی مضبوط ہیں، یہاں تک کہ اس بات کی صراحت بھی موجود ہے کہ پہلی، دوسری اورتیسری رکعت میں کون کون سی سورت حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے تھے۔ اگر وتر سے متعلق احادیث جاننا مقصود ہو تو درج ذیل کتبِ احادیث میں دیکھی جاسکتی ہیں( سنن نسائی الوترثلاث 1694 دارالفکر بیروت) (کنزالعمال باب الوترثلاث 21902 دارالفکر بیروت)

معلوم ہوا کہ ہمارا وتر پڑھنے کاطریقہ بھی حدیث سے ثابت اور سنت کے مطابق ہے، اور ہمیں اسی طرح پڑھنا چاہیے۔ اس مسئلے کی  مزید تفصیل محد ث العصر حضرت مولانامحمد  یوسف بنوری رحمہ اللہ کی  جزء الوتراور   علامہ زیلعی رحمہ اللہ کی”نصب الرایة“اور مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی ”اعلاء السنن“میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ 

معجم الکبیر للطبرانی میں ہے:

"عن ابن عباس – رضي الله عنه- قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يركع قبل الجمعة أربعًا، وبعدها أربعًا، لايفصل بينهن". 

(باب ما جاء في الصلوة قبل الجمعة، ص: 117، ط: قديمي)

ترمذی شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان منكم مصليا بعد الجمعة فليصل أربعًا".

 (باب ما جاء في الصلوة قبل الجمعة ص: 117، قديمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هي فرض) عين (يكفر جاحدها) لثبوتها بالدليل القطعي كما حققه الكمال، وهي فرض مستقل آكد من الظهر، ولیست بدلاً عنه. (قوله بالدليل القطعي) وهو قوله تعالى - ﴿يا أيها الذين اٰمنوا  إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا﴾ (الجمعة: 9) الآية- وبالسنة والإجماع".

(باب الجمعة، 2/136، ط: دارالفكر بيروت)

وفيه أيضًا:

"و(سن) مؤكداً (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة)".

 (باب الوتر والنوافل، 2/12، مطلب فی السنن والنوافل، ط: سعید کراچی)

حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:

"منها أربع «قبل الجمعة»؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يركع قبل الجمعة أربعًا لايفصل في شيء منهن، «و» منها أربع «بعدها»؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي بعد الجمعة أربع ركعات يسلم في آخرهن؛ فلذا قيدنا به في الرباعيات فقلنا: «بتسليمة» لتعلقه بقوله: وأربع، وقال الزيلعي: حتى لو صلاها بتسليمتين لايعتد بها".

 (حاشية الطحطاوي على المراقي، ص: 389، دار الکتب العلمیة بیروت)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"سن قبل الفجر وبعد الظهر والمغرب والعشاء ركعتان وقبل الظهر والجمعة وبعدها أربع. كذا في المتون والأربع بتسليمة واحدةعندنا حتى لو صلاها بتسليمتين لايعتد به عن السنة".

(كتاب الصلوة، الباب التاسع في النوافل 1/12، ط: ماجديه کوئٹہ)

غنیۃ المستملی میں ہے:

"(والسنة قبل الجمعة أربع وبعدها أربع) ... (وعند أبي يوسف) السنة بعد الجمعة (ست) ركعات وهو مروي عن علي رضي الله عنه الأفضل أن يصلي أربعا ثم ركعتين للخروج عن الخلاف".

(فصل فی النوافل، ص: 388، سہیل اکیڈمی لاہور)

''فتاویٰ رحیمیہ'' میں ہے:

''ظاہر روایت میں جمعہ کے بعد چار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ سنت مؤکدہ ہیں ، اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک چھ رکعتیں ہیں؛ لہذا جمعہ کے بعد چار رکعتیں ایک سلام سے سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھے، اور اس کے بعد دور کعتیں سنت غیر مؤکدہ سمجھ کر پڑھی جائیں، جو چار پر اکتفا کرتا ہے وہ قابلِ ملامت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ تحریر فرماتے ہیں :
(سوال )کتنی نمازیں سنت مؤکدہ ہیں ؟
(الجواب)……اور چاررکعتیں (ایک سلام سے) نماز جمعہ کے بعد …الخ دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں ۔

(سوال )کتنی نمازیں سنت غیر مؤکدہ ہیں ؟
(الجواب)……اور جمعہ کے بعد سنت مؤکدہ کے بعد دو رکعتیں ۔(تعلیم الا سلام حصہ چہارم )

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة."

(باب الجمعۃ ، کتاب الصلاۃ، جلد 2 ص: 157،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں