بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز جمعہ کے بعد دو سنتوں کا حکم / سنتوں کو ترک کرنا


سوال

جمعۃ المبارک کے فرض کے بعد جو دو سنتیں پڑھی جاتی ہیں وہ مئوکد ہیں یا غیر موکد اور اس کے تارک کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیز جو شخص عادتاً فرض کے بعد والی ساری سنتیں ترک کردیتا ہو،  اس کے بارے میں حکم ارشاد فرمائیں. 

جواب

جمعہ کے بعد چار رکعتیں سنتِ مؤکدہ ہیں، اور ان کے بعد دو سنتیں راجح قول کے مطابق غیر مؤکدہ ہیں۔ البتہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک چار رکعت اور دو رکعت دونوں سنتِ مؤکدہ ہیں۔

امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے آپ ﷺ کے قول اور عمل دونوں کو جمع فرمایا کہ آپ نے جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھنے کا حکم دیا اور آپ سے جمعہ کی نماز کے بعد دو رکعت سنتیں ادا کرنا منقول ہے۔ یہی مسلک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔ 

راجح قول کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو تم میں جمعہ کے بعد سنتیں پڑھے تو وہ چار رکعت ادا کرے، اور خود آپ ﷺ کا جو اس کے علاوہ دو رکعت ادا کرنا ثابت ہے تو  اس سے مواظبت معلوم نہیں ہوتی۔ اور چار رکعت کے بعد جو شخص جتنی چاہے نمازیں ادا کرے، منع نہیں ہے، البتہ اس کوسنتِ مؤکدہ نہیں کہا جاسکتا ہے، اور یہ مسلک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاہے۔

’’فتاویٰ رحیمیہ‘‘  میں ہے:

’’ظاہر روایت میں جمعہ کے بعد چار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ سنتِ مؤکدہ ہیں، اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک چھ رکعتیں ہیں؛ لہذا جمعہ کے بعد چار رکعتیں ایک سلام سے سنتِ مؤکدہ سمجھ کر پڑھے، اور اس کے بعد دور کعتیں سنتِ غیر مؤکدہ سمجھ کر پڑھی جائیں، جو چار پر اکتفا کرتا ہے وہ قابلِ ملامت نہیں ہے۔۔۔‘‘

مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمد کفایت ﷲ تحریر فرماتے ہیں :

(سوال )کتنی نمازیں سنت مؤکدہ ہیں ؟

(الجواب)……اور چاررکعتیں (ایک سلام سے) نماز جمعہ کے بعد …‘‘ الخ

دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں ۔

(سوال )کتنی نمازیں سنت غیر مؤکدہ ہیں ؟

(الجواب)……اور جمعہ کے بعد سنت مؤکدہ کے بعد دو رکعتیں ۔(تعلیم الا سلام حصہ چہارم )

’’امداد الفتاویٰ‘‘  میں ہے:

(سوال )جمعہ کی پہلی سنتیں مؤکدہ ہیں یا نہیں؟ اور بعد کی سنتوں میں چار مؤکدہ ہیں یا دو یا سب ؟

(الجواب)جمعہ کی پہلی سنتیں مؤکدہ ہیں ، کذا في الدر المختار اور بعد کی چار مؤکدہ ہیں کذا في الدر المختار.(امداد الفتاویٰ ج۱ص۶۷۸،ص۶۷۹مطبوعہ دیو بند )

(فتاویٰ رحیمیہ ، باب الجمعہ و العیدین،ج:۶ ؍۱۱۱ ،ط:دار الاشاعت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 285):

"وأما السنة قبل الجمعة وبعدها فقد ذكر في الأصل: وأربع قبل الجمعة، وأربع بعدها، وكذا ذكر الكرخي، وذكر الطحاوي عن أبي يوسف أنه قال: يصلي بعدها ستاً، وقيل: هو مذهب علي - رضي الله عنه -. وما ذكرنا أنه كان يصلي أربعاً مذهب ابن مسعود، وذكر محمد في كتاب الصوم أن المعتكف يمكث في المسجد الجامع مقدار ما يصلي أربع ركعات، أو ست ركعات أما الأربع قبل الجمعة؛ فلما روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتطوع قبل الجمعة بأربع ركعات»؛ ولأن الجمعة نظير الظهر، ثم التطوع قبل الظهر أربع ركعات كذا قبلها.

وأما بعد الجمعة فوجه قول أبي يوسف إن فيما قلنا جمعًا بين قول النبي صلى الله عليه وسلم وبين فعله؛ فإنه روي «أنه أمر بالأربع بعد الجمعة»، وروي أنه «صلى ركعتين بعد الجمعة»، فجمعنا بين قوله وفعله، قال أبو يوسف: ينبغي أن يصلي أربعاً، ثم ركعتين كذا روي عن علي - رضي الله عنه - كي لايصير متطوعاً بعد صلاة الفرض بمثلها، وجه ظاهر الرواية ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من كان مصلياً بعد الجمعة فليصل أربعاً». وما روي من فعله صلى الله عليه وسلم فليس فيه ما يدل على المواظبة، ونحن لانمنع من يصلي بعدها كم شاء، غير أنا نقول: السنة بعدها أربع ركعات لا غير؛ لما روينا". 

صرف فرض نماز پر اکتفا کرنا اور واجب اور سنتِ مؤکدہ کو چھوڑ دینا درست نہیں۔ فرض نماز تو فرض ہے، اور وتر کی نماز واجب ہے، ان دونوں کو چھوڑنا تو کبیرہ گناہ ہے، اگر وقت پر نہیں پڑھی تو بعد میں قضا پڑھنا لازم ہے، ان کا مستقل تارک فاسق ہے۔ سنتِ مؤکدہ کااہتمام کرناواجب کے قریب ہے،  عذر  کے بغیر  سنتِ مؤکدہ  چھوڑنا بھی جائز نہیں ہے، جوشخص کسی عذر کے بغیر  سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائقِ ملامت ہے، اور اللہ تعالٰی کے یہاں درجات سے محروم ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا اندیشہ ہے، یہاں تک کہ فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان سنتوں کو صحیح تو سمجھتا ہے، لیکن بلاعذر سنتِ مؤکدہ کو چھوڑنے کی عادت بنالیتا ہے تو یہ گناہ گار ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص ان سنتوں کو حق نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دے تو یہ عمل انسان کو کفر تک پہنچادے گا۔

البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً: وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے۔

 باقی سنتِ غیر مؤکدہ اور نوافل،  پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اگر کوئی پڑھے گا تو اسے ثواب ملے گا اور نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، تاہم انہیں بالکل نہ پڑھنے کی عادت بنالینا بھی مناسب نہیں۔

ہاں اگر کوئی شخص بالکل ہی نماز نہ پڑھتا ہو، تو اس کو نماز پر لانے کے لیے دعوتی اسلوب پر ابتدا میں صرف فرض کی دعوت دی جاسکتی ہے، اور جب وہ فرض پڑھنا شروع کردے تو پھر دھیرے دھیرے اسے سنن کی ترغیب دی جائے، لیکن اس میں باقاعدہ طور پر سنتوں کو چھوڑنے کی ترغیب دینا اور سننِ مؤکدہ کو  کم درجہ کا باور کرانا کسی طور پر درست نہ ہوگا. 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسن) مؤكدًا (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة، ولذا لو نذرها لايخرج عنه بتسليمتين، وبعكسه يخرج (وركعتان قبل الصبح وبعد الظهر والمغرب والعشاء) شرعت البعدية لجبر النقصان، والقبلية لقطع طمع الشيطان.

(قوله: وسن مؤكدًا) أي استنانًا مؤكدًا؛ بمعنى أنه طلب طلبًا مؤكدًا زيادةً على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبةً من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر، كما في شرحه". (2/12، 13، باب الوتر والنفل، ط:سعید)

وفیه أیضا:

"ترك السنن، إن رآها حقًّا أثم، وإلا كفر". (2/21، باب الوتر والنفل، ط:سعید)          

المحيط البرهاني  میں ہے :

"رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقاً فقد كفر، وإن رأى السنن حقاً، منهم من قال: لايأثم، والصحيح أنه يأثم. وفي «النوازل»: إذا ترك السنن، إن تركها بعذر فهو معذور، وإن تركها بغير عذر لايكون معذوراً، ويسأله الله تعالى عن تركها". (1 / 446، الفصل الحادی والعشرون في التطوع قبل الفرض، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

البحرالرائق میں ہے:

" سنة مؤكدة قوية قريبة من الواجب، حتى أطلق بعضهم عليه الوجوب، ولهذا قال محمد: لو اجتمع أهل بلد على تركه قاتلناهم عليه، وعند أبي يوسف يحبسون ويضربون وهو يدل على تأكده لا على وجوبه". [3/6]

         کفایت المفتی میں ہے:

’’سننِ مؤکدہ کا تارک علی الدوام گناہ گار اور تارک علی الاستخفاف کافر ہے، اور اگر ترک احیاناً یا ضرورۃً یا کسی عذر سے ہوجائے تو جائز ہے‘‘۔(3/ 319، سنتِ مؤکدہ کے تارک کا حکم، ط: دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں