بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی اذانِ اول اور اذانِ ثانی کےدرمیان وقفہ کی مقدار


سوال

جمعہ  کی اذانِ اول اور اذان ِثانی کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے؟

جواب

واضح رہےکہ جمعہ کےدن  پہلی اذان  جو کہ زوالِ آفتاب کے فورًا بعد دی جاتی ہے ،کامقصد لوگوں کو نماز ِجمعہ کے لیے متوجہ کر کے انہیں روانہ کرنے کے لیے ہے تاکہ لوگوں کو جمعہ کے وقت کا علم ہو جائے اور اپنی خرید و فروخت اور دیگر  دنیاوی امور چھوڑ کر نماز جمعہ کے لیے روانہ ہو جائیں،جب کہ دوسری اذان کا مقصد نماز شروع ہونے  کا وقت  قریب ہونے کی اطلاع ہے، جو  خطیب کے آنے اور منبر پر بیٹھنے  سے شروع ہوتا ہے ۔

چنانچہ جمعہ کی دونوں اذانوں کے درمیان فاصلہ ہونا ضروری ہے اوروہ درمیانی  وقفہ اتنا ہونا چاہیے کہ لوگ جمعہ کی نماز کے لیے تیار ہو کر چلے جائیں ،تا کہ پہلی اذان کا کوئی فائدہ بھی ہو، کیوں کہ اگر پہلی اور دوسری اذان ایک ساتھ ہی ہو اور دونوں اذانوں کے درمیان معمولی سا وقت ہوتو اس سے پہلی اذان کا فائدہ ختم ہو جاتا ہے، جب کہ حضرت  عثمان رضی اللہ عنہ کا اضافی اذان کا حکم دیتے ہوئے یہ مقصد نہیں تھا کہ محض دو اذانیں ہوں،لہٰذا اگر دونوں اذانیں قریب قریب ہوں توپھراذانِ اول کاکوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا۔

لہٰذاجمعہ کی پہلی اور دوسری اذان کے درمیان وقفہ اتنا ہونا چاہیے کہ لوگ جمعہ کی نماز کے لیے تیار ہو کر مسجد  چلےآئیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن السائب بن يزيد قال: كان النداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما، فلما كان عثمان رضي الله عنه وكثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء".

(صحيح البخاري،2/ 8، ط: طوق النجاة )

"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر"میں ہے:

"(‌ويجب ‌السعي وترك البيع بالأذان الأول) والواقع عقيب الزوال لقوله تعالى {إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع} [الجمعة: 9] وقيل بالأذان الثاني لكن الأول هو الأصح وهو مختار شمس الأئمة لأنه لو انتظر الأذان عند المنبر يفوته أداء السنة وسماع الخطبة وربما يفوت الجمعة إذا كان بيته بعيدا من الجامع."

(باب صلاة الجمعة، 171/1، ط: دار إحياء التراث العربي)

"الموسوعة الفقهية"میں ہے:

"وللجمعة أذانان، أولهما عند دخول الوقت، وهو الذي يؤتى به من خارج المسجد - على المئذنة ونحوها - وقد أمر به سيدنا عثمان رضي الله عنه حين كثر الناس.

والثاني وهو الذي يؤتى به إذا صعد الإمام على المنبر، ويكون داخل المسجد بين يدي الخطيب، وهذا هو الذي كان في عهد النبي صلى الله عليه وسلم وعهد أبي بكر وعمر حتى أحدث عثمان ‌الأذان ‌الثاني."

(دخول وقت الصلاة، 363/2، ط: دارالسلاسل كويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں