بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مصلے میں جمعہ ختم کرنا


سوال

میں ایک مصلے پر امامت کرواتا ہوں وہ فلیٹوں کے نیچے بنایا گیا ہے ،مستقل مسجد شرعی نہیں ہے ،وہاں پانچ وقت نمازوں اور تراویح کا اہتمام ہوتا تھا پھر   کرونا کے سال لوگوں نے کہا کہ یہیں پر جمعہ شروع کر دیں ؛کیونکہ دوسری جگہ جانے میں مشکلات تھیں، لہذا وہاں جمعہ بھی شروع کر دیا۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت چھوٹی سی جگہ ہے وہاں ساٹھ نمازی بھی مشکل سے آتے ہیں ، اور گٹر لائن کا پانی بھی آتا ہے اور وضو خانے کی سہولیات بھی نہیں ہیں ، اور وہاں کافی تعداد میں وہ طبقہ ہے جو ہم سے مسلکی طور پر متفق نہیں ہے ، اس لئے جمعہ کا بیان وغیرہ کرنے میں  بھی مشکلات پیش آتی ہیں، لہٰذا معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس جگہ جمعہ ختم کیا جا سکتا ہے ؟اور اس کا کیا طریقہ ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں  اب تک جو جمعہ یہاں ادا کیا گیا وہ تو اد اہوگیا، لیکن  اگر قریب میں جامع مسجد ہو وہ تمام لوگ جامع مسجد میں جاکر جماعت سے نماز ادا کریں، یہی بہتر ہے۔ کرو نا کے دوران شروع کرایا گیا جمعہ  کو مستقل باقی رکھنا ضروری نہیں ہے ،اس سلسلے میں  تمام شرکاء اور فلیٹس والوں کو مذکورہ مسئلہ سمجھا کر ان کو بڑی جامع مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے ۔ نیز کمیٹی والوں کو اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اگر اس جگہ پر جمعہ کا اہتمام ختم کیا جائے تو کوئی دوسرے مسلک والے اس جگہ پر جمعہ کا اہتمام شروع کر دیں۔

غنیۃ المتملّی في شرح منیة المصلّي( حلبی کبیر )   میں  ہے:

"و المسجد الجامع لیس بشرط و لھذا أجمعوا علی جوازها بالمصلی في فناء المصر."

(کتاب الصلوۃ، فصل فی صلوۃ الجمعۃ، ص:551، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر: وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى: {و أن المساجد لله} [الجن: 18]- بخلاف ما إذا كان السرداب و العلو موقوفًا لمصالح المسجد، فهو كسرداب بيت المقدس هذا هو ظاهر الرواية وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية. اهـ."

(کتاب الوقف، فرع بناء بيتا للإمام فوق المسجد، ج:4، ص:358، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں