جمعہ کے فرض نماز کے بعد دعا سے پہلے چندہ کرنا کیسا ہے؟
جمعہ کی فرض نماز کے بعد دعا سے پہلے چندہ کرنا مناسب نہیں ہے، کیوں کہ یہ وقت دعا کی قبولیت کا وقت ہے اور اس میں دعا کی جاتی ہے پھر سنتیں پڑھی جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ چندہ کی صورت میں فرض اور سنتوں کے درمیان فاصلہ لازم آئے گا۔
زیادہ بہتر یہ ہے کہ اردو تقریر ختم کرکے جمعہ کے خطبہ سے قبل ہی چندہ کرلیا جائے ۔ نیز اس میں اس بات کی رعایت کرنا ضروری ہے کہ صفوں میں گھومتے ہوئے چندے کرنے والے نمازیوں کے سامنے سے نہ گزریں اور لوگوں کے کاندھے نہ پھلانگیں، اوراصرار کے ساتھ یا زبردستی کسی سے چندہ وصول نہ کرے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.
(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـ ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101302
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن