بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جملہ حقوق بحق ناشر کا حکم


سوال

 میں ایک یوٹیوبر ہوں ،اور میں اپنے چینل پر اسلامک مواد اپلوڈ کرتاہوں، مثلا اسلامی واقعات ، مسائل اور بہت کچھ اور یہ مواد میں مختلف دینی کتب سے اٹھاتا ہوں، اب سوالات درجہ ذیل ہیں

(1) یہ الفاظ میں مختلف دینی کتب سے اپنے ہاتھ سے لکھ کر ویڈیو میں ٹیکسٹ کی صورت میں لگاتا ہوں، کیا یہ میرے  لیے جائز ہے یعنی یہ " جملہ حقوق بحق ناشر یا مصنف محفوظ ہیں" اس میں تو نہیں آئے گا؟

(2) اگر حوالہ دو ں کہ یہ قصہ فلاں کتاب یا مصنف سے ماخوذ ہے تو کیا حکم؟ اور اگر حوالہ نہ دوں تو کیا حکم ہے؟

(3)اگر کتاب کے الفاظ کتاب کھول کر اسکی صرف وائس ریکارڈر کروں، کتاب سے من وعن وہی الفاظ اور ویڈیو میں صرف وہی ریکارڈ شدہ وائس لگادوں ،اس کاٹیکسٹ نہ لگائوں تو کیا یہ  جائز ہے ؟کیا یہ " جملہ حقوق بحق ناشر یا مصنف محفوظ ہیں" میں تو نہیں آئے گا؟

(4)اگر تیسری صورت میں حوالہ دوں تو کیا حکم ہے؟ اور اگر حوالہ نہ دوں تو کیا حکم ہے؟

(5)اگر اوپر چاروں صورتوں کے کام مؤلفین یا مترجمین ( بعض کتب ایسی ہوتی ہیں جو عربی یا فارسی وغیرہ میں لکھی گئی ہوتی ہیں) تو دوسرے مصنفین لگ جاتے ہیں اور ان کے ترجمے اردو یا پشتو وغیرہ میں کرتے ہیں ،اور بعض تو اپنی طرف سے بھی کچھ مفید مواد شامل کرتے ہیں وہ بھی، یا شارحین کے کتب کے ساتھ کیا جائے تو کیا حکم ہے؟

نوٹ: ان تمام صورتوں میں میں ایک لفظ بھی اپنی طرف نہ منسوب کرتا ہوں  ،اور نہ اس کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہوں، اور نہ اس میں کمی بیشی کرتا ہوں اپنی کوشش کے مطابق، بلکہ من وعن وہی الفاظ لکھتا ہوں یا رکارڈ کرتا ہوں تو ویڈیو میں اسے سیٹ کرتا ہوں، لیکن اصل پوائنٹ یہ ہے کہ یوٹیوب پر لوگ ان واقعات کو دیکھ کر یا سن کر یوٹیوب مجھے پیسے دیتا ہے اور میرا مطلب بھی پیسے کمانے کا ہے، میری رائے کی مطابق اس سے ناشر یا مصنف کی مالیت کی بھی پامالی نہیں ہوتی، کیونکہ پامالی اس صورت میں ہوتی ہے کہ آپ کتاب کو چھپوا کر اس کا بیچنا شروع کریں اور مالیت کے علاوہ حقوق تو میرے پاس بھی محفوظ ہیں۔

(6)ضمن میں ایک سوال پوچھتا ہوں مؤلفین حضرات مختلف کتب سے مواد اکھٹا کرکے اس کو  کتاب کا شکل دیتے  ہیں پھر اس کو  مارکیٹ میں اتارتے ہیں اور اس کو بیچتے ہیں اسکا یہ مختلف کتب سے مواد اکھٹا کرنے کا عمل اور پھر اسکو کتاب کا شکل دینا اور پھر بیچنا یہ شریعت کے لحاظ سے کیسا ہے ؟

جواب

یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالو ورز  زیادہ ہوں تو یوٹیوب چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمرز  کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے  دیتا ہے۔  اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

1۔  جان د ار  کی تصویر والی ویڈیو اپ لوڈ کرے، یا  اس ویڈیو  میں  جان دار کی تصویر ہو۔

2۔ یا اس ویڈیو میں میوزک  اور موسیقی ہو۔

3۔ یا اشتہار  غیر شرعی ہو  ۔

4۔  یا  کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو۔

5۔ یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔

اوّلًا یوٹیوب انتظامیہ کے ساتھ کمائی کا جو معاہدہ کیا جاتاہے، وہ شرعی طور پر درست نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ عام طور پر اگر ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں  نہ بھی ہوں تب بھی کمرشل بنیاد پر یوٹیوب  پر چینل بنایا جائے تو اشتہارات مکمل طور پر بند نہیں کیے جاسکتے، اور چینل پر چلنے والے اشتہارات میں   شرعی اعتبار سے خرابیاں پائی جاتی ہیں،کیوں کہ  یہ اشتہارات ملکوں اور استعمال کرنے والے افراد کی ڈیوائس کی سرچ بیس کے  حساب سے مختلف  ہوتے ہیں، مثلاً اگر  پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں،  اور اس میں بسااوقات حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں،  اور چینل بنانے والا کسی اشتہار کو ناپسندیدہ قرار دے کر بند بھی کردے تو بھی آئندہ آنے والے اشتہارات میں جان دار  اور موسیقی سے پاک اشتہارات چلنے کی ضمانت نہیں ہے، بلکہ زیادہ تر اشتہارات جان دار کی تصویر پر مشتمل ہوتے ہیں؛  لہٰذا  ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کی شرعاً  گنجائش نہیں ہے۔

(1،2)مختلف دینی کتب سے اپنےہاتھ سے لکھ کر ٹیکسٹ لگانا "جملہ حقوق بحق ناشر یا مصنف"میں نہیں آئے گا،البتہ جوبات بھی نقل کی جائے اس کا حوالہ ضرور دیا جائے۔

(3،4)اگر کتاب کھول کر صرف اس کی وائس ریکارڈ کی جائے،تو دیانت کا تقا ضا یہی ہےکہ اس صورت میں بھی حوالہ دیا جائے۔

(5)کتاب کا ترجمہ کرنا،اس پر حاشیہ یا تعلیقات ،اس کا ترجمہ کرنا وغیرہ کرنا شرعا اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے،یہ کام کرنے کی گنجائش ہے۔

(6)مختلف کتب سے مواد اکٹھا کرکے،اس کو کتاب کی شکل دے دینا،یہ طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے،علمی دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ جو بات جہاں سے لی جائے اس کا حوالہ دیا جائے۔

فقہ البیوع میں ہے:

"أما إذا صوره لاستعماله الشخصي،أو ليهبه إلى بعض أصدقائه بدون عوض،فإن ذلك ليس من التعدي علي حق الإبتكار،فما توغل فيه نشرة الكتب،ومنتجو برامج الکمبیوتر من منع الناس من تصویر الکتاب أو قرص الکمبیوتر أو جزء منہ لاستفادة شخصیة ولیس للتجارة فإنہ لا مبرر لہ أصلاً ".

(الباب الثالث في أحكام المبيع، ص:275، ج:1، ط:معارف القرآن)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"وشرطي في هذا الكتاب: إضافة الأقوال إلى قائليها، والأحاديث إلى مصنفيها، فإنه يقال: ‌من ‌بركة ‌العلم أن يضاف القول إلى قائله."

(خطبة الكتاب ج:1، ص:3، ط:دار الكتب المصرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310101511

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں