بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کورین زبان میں میں تمہیں طلاق دے دوں گا کہنے کا حکم


سوال

ایک پاکستانی دوست جو  کہ کوریا میں رہتا ہے ،اور وہاں اس نے ایک لڑکی سے شادی کر لی ہے،دونوں میاں بیوی کا جھگڑا ہو گیا، بیوی نے کہا کہ مجھے طلاق دے دو، پاکستانی نے تین یا چار مرتبہ طلاق دے  دی،لیکن شوہر  کو کوریا کی زبان پر عبور حاصل نہیں تھا، تو اس نے جو الفاظ ادا کئے ان کا مطلب یہ ہے کہ" میں تمہیں طلاق دے دوں گا "،اب بیوی تو یہ  سمجھی کہ اس نے کہا کہ میں تمہیں طلاق دے  دوں گا،جبکہ شوہر کی نیت یہ تھی کہ میں طلاق دیتا ہوں ،کیا دونوں میں رجوع کی کوئی گنجائش ہےیا طلاق وارد ہو گئی ہے؟

جواب

واضح رہےکہ  طلاق  واقع  ہونےکے لیے ماضی یا حال کا صیغہ ہونا ضروری ہے،خواہ الفاظ کسی بھی زبان میں ادا کیے جائیں،مستقبل کے صیغے کے ساتھ طلاق واقع نہیں ہوتی،اگر چہ نیت میں ماضی یا حال کا صیغہ ہو، صورتِ  مسئولہ  میں اگر واقعتاً شوہر نے  کورین زبان میں جو جملہ استعمال کیا تھا، وہ آئندہ مستقبل میں طلاق دینے کی دھمکی  پر مشتمل تھا، حال یا ماضی کا صیغہ نہیں تھا،اور اس نے کورین زبان میں جو الفاظ ادا کئے اس کا اردو زبان میں مطلب یہ ہے کہ"میں تمہیں طلاق دوں گا"اگرچہ مذکورہ شخص کی نیت میں یہی تھا کہ حال کے صیغہ کے ساتھ دینی تھی، تو ایسی صورت میں وعدہ اور دھمکی کے الفاظ سے طلاق دینے سے شرعاً کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح بدستور قائم ہے۔

العقود الدریۃ  میں ہے:

"(الجواب) : صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام وحيث تركت ذلك المدة المذكورة فإذا عادت لموافقتها وإطاعتها لا يقع عليه الطلاق لأن كلمة ما دام غاية ينتهي اليمين بها كما تقدم عن التنوير وشرحه."

(العقود الدریة، كتاب الطلاق، ج:1 ص:38 ط:رشيديه)

محیط برہانی میں ہے:

"قوله: أطلق، لا يكون طلاقاً في أنه دائر بين الحال والاستقبال فلم يكن تحقيقاً مع الشك حتى أن موضع علمت استعماله للحال كان تحقيقاً."

(المحيط البرهاني، كتاب الطلاق، الفصل السابع والعشرون: في المتفرقات ج:3 ص:472 ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں