جمعہ کی اور عصر کی نماز کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کر بیٹھ کر دعا کروانے کا حکم بتادیجیے ۔؟
جن نمازوں کے بعد سنن ونوافل نہیں ہے ان نمازوں کے بعد امام صاحب کا مقتدیوں کے سامنے بیٹھنا مستحب ہے، فرض یا واجب نہیں ہے،اور جن نمازوں کے بعد سنن ونوافل ہیں ان کے بعد امام کا مقتدیوں کی طرف بیٹھنا مستحب بھی نہیں ہے بلکہ امام کو رو بہ قبلہ دعا کرکے سنن ونوافل میں مشغول ہوجانا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازوں کے بعد دونوں امر ثابت ہیں اور علماء نے ان کو انہی دو حالتوں پر محمول کیا ہے۔
یعنی رسول اللہ ﷺ کامعمول فجر اور عصر کی نماز میں تو مقتدیوں کی طرف رُخ کرکے بیٹھنے کا تھا، لیکن ان دونمازوں کے علاوہ دیگر نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کا معمول مقتدیوں کی طرف رُخ کرکے بیٹھنے یا بیان کرنے کا نہیں تھا، تاہم بوقتِ ضرورت آپ ﷺ سے ثابت ہے دیگر نمازوں (ظہر،جمعہ ،مغرب اور عشاء) میں سنت یہی ہے کہ فرض اور سنتِ مؤکدہ کے درمیان ثابت شدہ دعاء یا بہت مختصر ذکر کے علاوہ فاصلہ نہ کرے۔
مراقی الفلاح میں ہے:
"وعقب الفرض إن لم یکن بعده نافلة یستقبل (الناس) إن شاء إن لم یکن في مقابلة مصل؛ لما في الصحیحین "کان النبي ﷺ إذا صلی أقبل علینا بوجهه"، وإن شاء الإمام انحرف عن یساره جعل القبلة عن یمینه وإن شاء انحرف عن یمینه وجعل القبلة عن یساره، وهذا أولی؛ لما في مسلم: "کنا إذا صلّینا خلف رسول اﷲ ﷺ أحببنا أن نکون عن یمینه حتی یقبل علینا بوجهه."
(كتاب الصلوة،فصل في الأذكار الواردة بعد الفرض،ص:119،ط:المکتبة العصرية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الخانیة یستحب للإمام التحول لیمین القبلة یعنی یسار المصلي لتنفل أو ورد، وخیّرہ في المنیة بین تحویلہ یمینًا وشمالاً وأماماً وخلفًا وذہابه لبیته واستقباله الناس بوجہه."
(کتاب الصلوۃ،فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها،ج:1،ص:531،ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506101367
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن