بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے دن دکان کھلی رکھنا اور باری باری نماز ادا کرنا


سوال

میری دکان ہے اس پر ایک ملازم کام کرتا ہے ، ہماری دکان کے آس پاس دو مساجد ہیں جن میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے ایک مسجد میں نماز ایک بجے جبکہ دوسری مسجد میں دو بجے نماز ہوتی۔ ہم اس طرح کرتے ہیں کہ ملازم ایک بجے والی مسجد میں نماز ادا کرتا ہے اور میں دکان پر بیٹھا رہتا ہوں پھر جب وہ آجاتا ہے تو میں دو بجے والی مسجد میں نماز ادا کرتا ہوں اس طرح ہم دکان بھی بند نہیں کرتے اور نماز بھی پڑھ لیتے ہیں ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کا جمعہ کےدن جمعہ کی نماز کے لیے  دکان بند نہ کرنا اور سائل اور اس کے ملازم کا باری باری نماز ادا کرنا (ملازم ایک بجے والی نماز اور سائل دو بجے والی نماز ) شرعا درست نہیں ہے، کیونکہ جمعہ کے دن جمعہ کی پہلی اذان (یعنی سائل کے محلہ کی وہ مسجد جہاں سب سے پہلے جمعہ کی نماز ہوتی ہے اس مسجد کی پہلی اذان )کے بعد کاروبار بند کرنے کا حکم ہے اور کاوبار کرنا مکروہ تحریمی ہے۔لہذا سائل پر لازم ہے کہ محلہ میں جو پہلی جمعہ کی نماز ہو اس کی اذان اول کے بعد دکان بند کر دے اور جمعہ کی تیاری کرے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) تحريما منع الصحة (البيع عند ‌الأذان ‌الأول) إلا إذا تبايعا يمشيان فلا بأس به لتعليل النهي بالإخلال بالسعي، فإذا انتفى انتفى، وقد خص منه من لا جمعة عليه ذكره المصنف»

(قوله وكره تحريما مع الصحة) أشار إلى وجه تأخير المكروه عن الفاسد مع اشتراكهما في حكم المنع الشرعي والإثم، وذلك أنه دونه من حيث صحته وعدم فساده؛ لأن النهي باعتبار معنى مجاور للبيع لا في صلبه ولا في شرائط صحته، ومثل هذا النهي لا يوجب الفساد بل الكراهية كما في الدرر. وفيها أيضا أنه لا يجب فسخه ويملك المبيع قبل القبض ويجب الثمن لا القيمة. اهـ لكن في النهر عن النهاية أن فسخه واجب على كل منهما أيضا صونا لهما عن المحظور، وعليه مشى الشارح في آخر الباب، ويأتي تمامه (قوله عند الأذان الأول) وهو الذي يجب السعي عنده."

(کتاب البیوع،  باب البیع الفاسد، ج نمبر ۵، ص نمبر ۱۰۱، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں