بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کا ایک خطبہ اردو میں اور ایک عربی میں دینے کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں میں بعض غیر مقلدین جمعہ کے دن ایک خطبہ دیتے ہیں؛  یعنی پہلے بیان کرتے ہیں،  اور پھر عربی میں صر ف ایک خطبہ دیتے ہیں ، درمیان میں بیٹھتے نہیں ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم جو پہلی بار پشتو یا اردو میں تقریر کرتے ہیں،  تو وہ ایک خطبہ ہوگیا، اور عربی والا دوسرا خطبہ ہوگیا۔

1۔ کیا ان کا یہ فعل جائز ہے یا نہیں؟

2۔ کیا خطبہ کو عربی کے علاوہ زبان میں پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟اگر جواب نفی میں ہو، تو کیوں جائز نہیں؟ حالانکہ ہم کہتے ہین کہ دعا ماثور کو اگر دوسری زبان میں ادا  کی جائیں تو صحیح ہے؟

3۔  کیا آج کل جمعہ کا دن جو تقریر کی جاتی ہے،  اس کو خطبہ کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟

 

جواب

واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عربی زبان میں خطبہ دینے پر مواظبت فرمائی ہے ۔ نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عجمی علاقوں میں  باوجود دوسری زبانوں پر قادر ہونے کے غیر عربی میں خطبہ نہ دینے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ میں عربیت مقصود ہے۔لہذا جب عربی میں خطبہ مقصود  ہےاور اس پر مواظبت بھی ہے،تو یہ سنت مؤکدہ ہے اور سنت مؤکدہ کے چھوڑنے پر گناہ لازم آتا ہے ، اور اس کا چھوڑنا مکروہ تحریمی ہوتا ہے (ماخوذ از امداد الفتاوی، ج نمبر ۱، ص نمبر ۵۱۴، دار الاشاعت) ۔

اس تمہید کے بعد سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ ان کا یہ فعل سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز اور مکروہ تحریمی  ہے۔

2۔  عربی زبان کے علاوہ دوسری زبان میں خطبہ پڑھنا سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز  اور مکروہ تحریمی ہے۔

رہی  بات  دعا ماثورکی کہ ان کا اردو میں پڑھنا جائز ہے، تو  پھر خطبہ بھی جائز ہونا چاہیے ، تو یہ بات جاننی چاہیے کہ اگر سائل کی مراد  نماز کے دوران  اردو زبان میں دعاء ماثور پڑھنا ہ،  تو پھر یہ بات درست نہیں؛ کیونکہ نماز میں اردو دعا پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اور   اگر سائل کی مراد نماز کے علاوہ دعا ماثور  اردو زبان میں پڑھنا ہے تو یہ بات درست ہے کہ ان کا اردو میں پڑھنا جائز ہے،  لیکن اس پر خطبہ کو قیاس کرنا درست نہیں ہے،  کیونکہ خطبہ نماز جمعہ کے لیے شرط ہے، اور جمعہ کا خطبہ   عربی زبان میں ہونا مواظبت کی وجہ سے سنت مؤکدہ،  و مقصود ہے، جبکہ دعا کا مقصد اللہ سے اپنی حاجت طلب کرنا ہے، جس کے لیے عربی زبان میں ہونا شرط نہیں، لہذا جمعہ کے خطبہ کو ادعیہ  ماثورہ پر قیاس کرنا درست نہیں۔

3۔  اردو میں کی ہوئی تقریر کو سنت خطبہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الرابع: (الخطبة فيه) فلو خطب قبله وصلى فيه لم تصح.

(قوله الخطبة فيه).. .لم يقيد الخطبة بكونها بالعربية اكتفاء بما قدمه في باب صفة الصلاة من أنها غير شرط ولو مع القدرة على العربية عنده خلافا لهما حيث شرطاها إلا عند العجز كالخلاف في الشروع في الصلاة."

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج نمبر ۲، ص نمبر ۱۴۷، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح شروعه) أيضا مع كراهة التحريم (بتسبيح وتهليل) وتحميد وسائر كلم التعظيم الخالصة له تعالى ولو مشتركة كرحيم وكريم في الأصح، وخصه الثاني بأكبر وكبير منكرا ومعرفا. زاد في الخلاصة والكبار مخففا ومثقلا (كما صح لو شرع بغير عربية) أي لسان كان،»

(قوله أيضا إلخ) أي كما صح شروعه بالتكبير السابق صح أيضا بالتسبيح ونحوه، لكن مع كراهة التحريم لأن الشروع بالتكبير واجب وقدمنا أن الواجب لفظ الله أكبر من بين ألفاظ التكبير الآتية. وقال في الخزائن هنا، وهل يكره الشروع بغير الله أكبر؟ تصحيحان. والراجح أنه مكروه تحريما، وأن وجوبه عام لا خاص بالعبد كما حرره في البحر للمواظبة التي لم تقترن بترك. اهـ."

(کتاب الصلاۃ، ج نمبر ۱،ص نمبر ۴۸۳، ایچ ایم سعید)

مصفی شرح المؤطا میں ہے:

"ولما لاحظنا خطب النبي صلي الله عليه و سلم و خلفائه رضي الله عنهم و هلم جرا فتنقحنا وجود اشياء منها الحمد و الشهادتين و الصلاة علي النبي و الامر بالتقوي و تلاوة اية و الدعاء للمسلمين و المسلمات و كون الخطبة عربية (الي قوله) و اما كونها عربية فلاسمرار اهل المسلمين في المشارق و المغارب به  مع ان في كثير من الاقاليم كان المخاطبون اعجميين و قال النووي في كتاب الاذكار حمد الله تعالي و يشترط كونها (خطبة الجمعة و غيرها) بالعربية."

(جواہر الفقہ، ج نمبر ۲، ص نمبر ۵۰۸، دار الاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عربیت شرط نہیں ہے یعنی غیر عربی زبان مین بھی خطبہ ادا ہوجائے گا لیکن غیر عربی زبان میں خطبہ پڑھنا مکروہ بالاتفاق ہے کیونکہ قرون اولی مشہود  لہا بالخیر میں اس کا تعامل نہ تھا۔"

(کتاب الصلاۃ، ج نمبر ۳، ص نمبر ۲۷۰، دار الاشاعت)

جواہر الفقہ میں ہے:

"خطبہ جمعہ و عیدین کا عربی ہونا سنت اور اس کے خلاف دوسری زبانوں میں پڑھنا بدعت ہے۔"

(ج نمبر ۲، ص نمبر ۵۲۴، دار الاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويسن خطبتان) خفيفتان وتكره زيادتهما على قدر سورة من طوال المفصل (بجلسة بينهما) بقدر ثلاث آيات على المذهب وتاركها مسيء على الأصح كتركه قراءة قدر ثلاث آيات»

(قوله: ويسن خطبتان) لا ينافي ما مر من أن الخطبة شرط لأن المسنون هو تكرارها مرتين، والشرط إحداهما."

(کتاب الجمعہ، ج نمبر ۲، ص نمبر ۱۴۸، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں