بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی نماز سے پہلے کی سنتیں کس میں شمار ہوں گی؟


سوال

جمعہ والے دن جو  لوگ صرف  جمعہ  کی  جماعت سے پہلے چار رکعات سنت پڑھتے ہیں اور  بعد میں دو فرض جمعہ کے پڑھ کر  گھر چلے جاتے ہیں ،  انہوں نے جو  چار رکعات سنت  پڑھی ہیں،  وہ کس میں شمار  ہوں گی؟

جواب

انہوں نے جو  چار  رکعات جمعہ  کی نمازسے پہلے پڑھی ہیں وہ جمعہ سے پہلے کی چار رکعات  سنتِ  مؤکدہ   شمار ہوں گی۔  لیکن ان کا جمعہ کے بعد کی سنتیں چھوڑ کر جانا  غلط روش ہے، جمعہ کے بعد کی سنتیں بلا عذر ترک کرنا جائز نہیں،  بلاعذر ترک کرنے والا شخص گناہ گار اور لائقِ ملامت ہے، کیوں کہجمعہ کے  بعد   چار  رکعتیں سنتِ مؤکدہ ہیں، اور ان کے بعد دو سنتیں  راجح قول کے مطابق غیر مؤکدہ ہیں۔ البتہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک چار  رکعت اور دو  رکعت دونوں سنتِ مؤکدہ ہیں؛ اس لیے  جمعہ کے بعد کی سنتیں کی پابندی کرنی  چاہیے، ان میں سستی نہیں کرنی  چاہیے۔

الدر المختار میں ہے:

"(وسنّ) مؤكدًا (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة) فلو بتسليمتين."

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل (2/ 12، 13)، ط. سعيد)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وفي «فتاوى أهل سمرقند» : رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقاً فقد كفر، وإن رأى السنن حقاً منهم من قال: لا يأثم، والصحيح أنه يأثم.وفي «النوازل» إذا ترك السنن إن تركها بعذر فهو معذور، وإن تركها بغير عذر لا يكون معذوراً، ويسأله الله تعالى عن تركها، والله أعلم".

(المحيط البرهاني: كتاب الصلاة، الفصل الحادي والعشرون في التطوع قبل الفرض وبعده (1/ 446)، ط. دار الكتب العلمية،الطبعة الأولى: 1424 هـ =2004 م)

النہر الفائق میں ہے:

 ".... وقبل الظهر والجمعة وبعدها أربع) هذا هو ظاهر الرواية كما في (البدائع) وقال الثاني: بعد الجمعة ستة وبه أخذ الطحاوي وأكثر المشايخ كما في (عيون المذاهب) وعبارته في (التجنيس) وغيره: وكثير من مشايخنا أخذوا بقوله في (المنية) والسنة عندنا أن يصلي أربعًا ثم ركعتين".

(النهر الفائق: كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل (1/ 295)، ط. دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى: 1422هـ = 2002م)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں