محلے کے پیش امام جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے وقت مقررہ سے پانچ دس منٹ کی تاخیر کر جاتے ہیں، ، جس کی وجہ سے اہل محلہ امام کو برا بھلا کہتے ہیں، جبکہ امام صاحب کا کہنا ہے کہ عوام کو مسئلہ سمجھانے کی وجہ سے دیر ہوجاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ امام صاحب عیدین اور جمعہ کی نماز میں وقت مقررہ سے اگر کچھ تاخیر کر دے تو کیا امام کے لیے اس کی اجازت ہے؟ باوجود اس کے کہ محلے والے امام کو برا بھلا کہتے ہوں، ایسی صورت میں اہل محلہ کے لیے کیا حکم ہے ؟
واضح رہے کہ موجودہ زمانہ کے لوگ ایک طرف دنیوی مشاغل میں بہت زیادہ مصروف ہیں، دوسری طرف دین سے بے انتہا غافل اور لا پرواہ ہیں، اگر مقررہ وقت پر جماعت کھڑی نہیں کی جائے گی تو لوگوں کی جانب سے جماعت میں شرکت سے پہلو تہی برتنے کا خطرہ ہے، اس لئے متعینہ وقت پر جماعت کھڑی کرنے کا اہتمام کرنا اور اس کی پابندی کرنا بے انتہا ضروری ہے تا کہ جماعت میں لوگ کم نہ ہو جائیں۔
لہذا مستقل طور پر جمعہ و عیدین میں پانچ دس منٹ تاخیر سے جماعت کھڑی کرنے کی عادت بنالینا صحیح نہیں ہے، کیوں کہ مستقل عادت بنانے کی وجہ سے نمازیوں کو اذیت وتکلیف ہوتی ہے، البتہ اگر کسی وقت موضوع اس نوعیت کا ہو کہ وقت پر جماعت کھڑی کرنے کی صورت میں بات ادھوری رہ جائے، اور بات کا ادھورا رہنا تشویش کا باعث ہو، تو بات مکمل کرنے کے لیے کچھ اضافی وقت لینے اجازت ہوگی، بہر صورت امام کی غیبت کرنا، یا اسے برا کہنا ہر گز جائز نہ ہوگا۔( مستفاذ : احسن الفتاوى : ۳۰۱/۳، کتاب الصلاة، باب الامامة، والصلاة، ط: سعید کراچی)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409101135
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن