بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی نماز کے علاوہ سنت رکعات کی تعداد کیا ہے؟


سوال

جمعہ میں کل کتنی رکعتیں ہیں بارہ یا چودہ؟

دار الافتاء دار العلوم دیوبند کے فتووں میں اس طرح اختلاف ہے کس قول کو راجح قرار دیں رہنمائی فرمائیں گے،

ملاحظہ فرمائیں فتووں کا اختلاف

جواب نمبر: 11564

بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی: 457=376/د  

جمعہ کی نماز میں سنت ونفل ملاکر کل چودہ رکعتیں ہیں: جن میں سے چار رکعت جمعہ سے پہلے سنت موٴکدہ ہے، دو رکعت نماز جمعہ یہ فرض ہے، اس کے بعد چار رکعت طرفین (امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ) کے نزدیک اور چھ رکعت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک سنت موٴکدہ ہے اور یہی قول راجح ہے، آخر میں دو رکعت نفل ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

چودہ رکعتیں ہیں یا بارہ رکعتیں؟

دارالافتاء دار العلوم دیوبند میں یہ بھی لکھا ہو ہے

سوال نمبر: 155625

عنوان:نماز جمعہ کی ركعات؟

سوال:حضرت، کیا جمعہ کی نماز میں 12/ رکعتیں ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صرف 6/ رکعتیں ہیں، صحیح کیا ہے؟

جواب نمبر: 155625

بسم الله الرحمن الرحيم Fatwa:176-151/H=3/1439

دو فرض سے پہلے چار سنت موٴکدہ پھر دو فرض اس کے بعد چار سنتِ موٴکدہ پھر دو اور سنت امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہیں، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الحلبی الکبیر ص۳۸۸و ص۳۸۹ (مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور)

یہ کل بارہ رکعات ہوئیں جو لوگ چودہ بتلاتے ہیں یا کچھ لوگ صرف چھ کہتے ہیں معلوم نہیں ان کا ماخذ کیا ہے؟ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

پھر دوسری جگہ فتوی میں لکھا ہوا ہے :

جمعہ میں کل کتنی رکعتیں ہیں؟

سوال:جمعہ کی نماز میں فرض اور سنت کی کل کتنی رکعتیں ہیں؟ براہ کرم، حدیث کے حوالے سے جواب دیں، کیوں کہ جب تک قرآن ، حدیث ، اجماع یا قیاس کے حوالے سے جواب نہ دیا جائے میرے دوست نہیں مانتے ہیں ۔

جواب نمبر: 146695

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 189-215/Sd=4/1438

جمعہ سے متعلق تفصیل یہ ہے : (۱) چار رکعات سنت موکدہ۔ (۲) دو رکعات فرض ۔ (۳) چار رکعات سنت موکدہ ۔( 4) دو رکعات سنت غیر موکدہ۔ بعض ائمہ کے نزدیک یہ بھی سنت موٴکدہ ہے۔

دلائل یہ ہیں:

"عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرکع قبل الجمعة أربعاً ؛لا یفصل في شيء منہن۔ ( ابن ماجہ، ص: ۷۹، باب ما جاء في الصلاة قبل الجمعة ، ط: أشرفي).

عن أبي ہریرة رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم: إذا صلی أحدکم الجمعة فلیصل بعدہا أربعاً۔ (صحیح مسلم / باب الصلاة بعد الجمعة رقم: ۸۸۱).

عن سالم عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الجمعة رکعتین۔ (صحیح مسلم رقم: ۸۸۲، صحیح البخاري رقم: ۹۳۷)

ومنہا أربع بعدہا؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الجمعة أربع رکعات یسلم في آخرہن۔ (مراقي الفلاح) وفي الطحطاوي: ثم عند أبي یوسف یصلي أربعاً ثم اثنتین، کذا في الحدادي۔ (طحطاوي علی مراقي الفلاح / فصل في بیان النوافل ۲۱۳قدیمي کتب خانہ کراچی، ۳۸۹، المکتبة الأشرفیة دیوبند).

عن أبي عبد الرحمٰن قال: قدم علینا ابن مسعود رضي اللّٰہ، فکان یأمرنا أن نصلي بعد الجمعة أربعاً، فلما قدم علینا عليٌّ أمرنا أن نصلي ستا، فأخذنا بقول علي، وترکنا قول عبد اللّٰہ، قال: کان یصلي رکعتین، ثم أربعاً۔ (مصنف ابن أبي شیبة ۴/۱۱۷رقم: ۵۴۱۰).

عن عبد اللّٰہ بن حبیب قال: کان عبد اللّٰہ یصلي أربعاً، فلما قدم علي صلّٰی ستاً: رکعتین وأربعاً۔ (مصنف ابن أبي شیبة ۴/۱۱۷رقم: ۵۴۱۱).

وقال أبو یوسف: یصلي أربعاً قبل الجمعة وستاً بعدہا، وفي الکرخي محمد مع أبي یوسف۔ وفي المنظومة: مع الإمام، ثم عند أبي یوسف یصلي أربعًا ثم اثنین۔ (طحطاوي علی مراقي الفلاح ،ص:۳۸۹،ط:دار الکتاب، دیوبند).

وأربع قبل الجمعة وأربع بعدہا بتسلیمة۔ (درمختار ۲/۴۵۱زکریا).

والأفضل أن یصلي أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف۔ (غنیة المستملي ۳۷۳، مجمع الأنہر ۱/۱۳۰بیروت، أحسن الفتاویٰ ۳/۴۸۶)۔ واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند"

برائے کرم رہنمائی فرمائیں میں جمعہ کی نماز پڑھاتا ہوں اسی اختلاف کی وجہ سے آج تک میں نے مقتدیوں کو جمعہ رکعتیں نہیں بتائی ہیں راجح قول کی تصریح فرمادیں اور ساتھ ساتھ وجہ ترجیح !

جواب

صورت مسئولہ میں جمعہ کی نماز سے قبل چار رکعات سنت مؤکدہ  ایک سلام کے ساتھ، پھر دو رکعت نماز جمعہ، پھر  فرض کے بعد چار رکعات سنت مؤکدہ ایک سلام کے ساتھ،  پھر دو رکعات ،  اس طرح کل بارہ رکعات بنتی ہیں،  اس کے ساتھ اگر دو نفل شامل کرلیں تو پھر چودہ رکعات بنتی ہیں، لہذا دار العلوم کے منسلکہ فتوی( نمبر: 11546 )  میں جو چودہ رکعات کی تعداد  لکھی گئی ہے،  وہ دو نفل سمیت ہے، اور باقی فتاوی میں  رکعات  کی تعداد جو بارہ لکھی گئی ہے، وہ نوافل کی دو رکعات کے علاوہ ہے، لہذا دونوں فتاوی میں کوئی تضاد نہیں ہے، نیز دار العلوم کے منسلکہ فتوی میں  تو  دو نفل کی وضاحت بھی  موجود ہے،  پس اس پر منصب امامت پر فائز کسی اہل علم کو اشتباہ نہیں ہونا چاہیئے۔

الغرض سائل اپنی مسجد کے نمازیوں کو دونوں طریقہ  سے جمعہ کی نماز کی رکعات کی تعداد بتلا سکتا ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما بعد الجمعة فوجه قول أبي يوسف إن فيما قلنا جمعا بين قول النبي صلى الله عليه وسلم وبين فعله فإنه روي «أنه أمر بالأربع بعد الجمعة» وروي أنه «صلى ركعتين بعد الجمعة» ، فجمعنا بين قوله وفعله قال أبو يوسف: ينبغي أن يصلي أربعا، ثم ركعتين كذا روي عن علي - رضي الله عنه - كي لا يصير متطوعا بعد صلاة الفرض بمثلها، وجه ظاهر الرواية ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من كان مصليا بعد الجمعة فليصل أربعا» وما روي من فعله - صلى الله عليه وسلم - فليس فيه ما يدل على المواظبة، ونحن لا نمنع من يصلي بعدها كم شاء، غير أنا نقول: السنة بعدها أربع ركعات لا غير؛ لما روينا."

( كتاب الصلاة، فصل الصلاة المسنونة، ١ / ٢٨٥، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں