جمعہ کی خطبہ میں پڑھی جانے والی دعاء:"اللهم اغفر للعباس وولده مغفرة ظاهرة وباطنة لا تغادر ذنبا"کی تخریج و تحقیق چاہیے.
جمعہ کے خطبہ میں پڑھی جانے والی دعاکے مذکورہ الفاظ "فضائل الصحابة للإمام أحمد بن حنبل"، "سنن الترمذي"، "مسند البزار"، "السنة"، "مسند الشاميين"، "مصابيح السنة"، ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہیں۔
البتہ بعض کتب احادیث میں "اللهم احفظه في ولده" کے الفاظ کی بجائے " اللهم اخلفه في ولده" کے الفاظ ملتے ہیں،جب کہ رزین نے"واجعل الخلافة باقية في عقبه" کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔
سنن ترمذی کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا إبراهيم بنُ سعيدٍ الجوهريُّ، قال: حدّثنا عبد الوهاب بنُ عطاءٍ عنْ ثور بنِ يزيدَ عنْ مكحولٍ عنْ كُرَيْبٍ عنْ ابنِ عبّاسٍ-رضي الله عنهما- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم- للِعبّاسِ -رضي الله عنه-: إذا كان غداةَ الإِثنين فَأْتِنِيْ أنتَ وولدُك حتّى أدعوَ لهُم بِدعوةٍ ينفعُك اللهُ بِها وولدَك، فَغدَا وغدَوْنا معهُ فألبسَنا كِساءً، ثُمّ قال:اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَوَلَدِهِ مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لَا تُغَادِرُ ذَنْبًا، اللَّهُمَّ احْفَظْهُ فِي وَلَدِهِ."
"یعنی حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اُن کے والد حضرت) عباس -رضی اللہ عنهما- سے فرمایا: جب پیر کے دن کی صبح ہو تو تم اپنی اولاد سمیت میرے پاس آنا تاکہ میں اُن کے لیے ایسی دعا کردوں جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو فائدہ دے، چنانچہ (پیر کے دن کی ) صبح وہ اور ہم ساتھ (حضور کی خدمت میں) گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک چادر پہنائی، پھر دعاء فرمائی:"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَوَلَدِهِ مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لَا تُغَادِرُ ذَنْبًا، اللَّهُمَّ احْفَظْهُ فِي وَلَدِهِ"(اے اللہ! عباس اور اُن کی اولاد کی ایسی ظاہری اور باطنی مغفرت فرمادیجیے کہ اُن کا کوئی گناہ نہ چھوڑیئے، اے اللہ! اُن کی اولاد کے معاملہ اُن کی حفاظت فرمائیے۔"
امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے متعلق فرماتے ہیں:
"هَذا حديثٌ حسنٌ غريبٌ لَا نعرِفُه إلّا مِنْ هَذا الوجهِ."
(أبواب المناقب،110/5، دار الغرب الاسلامی)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے حسن غریب ہے، البتہ اس کے هم معنی الفاظ دیگر کتبِ حدیث میں بطورِ شاہد موجود ہیں، جن سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے، لہذا اسے بیان کیاجاسکتا ہے ، اگر چہ اس کی سند میں کلام ہے۔
شرح علل الترمذی لابن رجب میں ہیں:
"وعلى هذا فلا يُشكل قوله: "حديثٌ حسنٌ غريبٌ"، ولا قوله: "صحيحٌ حسنٌ غريبٌ لا نعرفُه إلاّ مِن هذا الوجه"، لأنّ مُراده أنّ هذا اللفظ لا يُعرف إلاّ من هذا الوجه، لكن لِمعناه شواهدُ مِن غير هذا الوجه، وإنْ كانتْ شواهدُ بغير لفظِه."
( فصل في الحديث الحسن، وما يتفرع على شروطه،وتحته عنوان، الإصطلاحات المركبة عند الترمذي، 386/1،دارالسلام)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102687
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن