کیا ایک بار پہنا ہوا لباس جمعے کو پہن لیں تو اس پر بھی حساب کتاب نہیں ہوگا؟ یا جمعے کو با لکل نیا لباس پہننا ضروری ہے ؟
واضح رہے کہ احادیث میں یہ بات نہیں مل سکی جس میں یہ صراحت ہو کہ جمعہ کے دن نیا لباس پہننے کی صورت میں حساب کتاب نہیں ہوگا، اور جمعہ کے علاوہ پہننے کی صورت میں حساب کتاب ہوگا، حساب کتاب کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور حساب کتاب ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ احادیث یا قرآن مجید کے ذریعہ ہی معلوم ہوسکتا ہے، اس کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
البتہ اگرنیا لباس میسر ہو تو اسے جمعہ کے دن سے شروع کیا جائے،اور اگرنیا لباس نہ ہو تو موجودہ کپڑوں میں جو اچھا اور صاف ستھرا ہو اور بنسبت دوسرے کپڑوں کے نیا ہو تو وہ پہن لیا جائے ۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَا : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَلَبِسَ مِنْ أَحْسَنِ ثِيَابِهِ، وَمَسَّ مِنْ طِيبٍ إِنْ كَانَ عِنْدَهُ، ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلَمْ يَتَخَطَّ أَعْنَاقَ النَّاسِ، ثُمَّ صَلَّى مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ، ثُمَّ أَنْصَتَ إِذَا خَرَجَ إِمَامُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِهِ ؛ كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ جُمُعَتِهِ الَّتِي قَبْلَهَا."
(كتاب الطهارة، باب في الغسل يوم الجمعة، ج:1، ص:61، ط: مكتبه رحمانيه)
سبل الهدیٰ والرشاد میں ہے:
"عن أنس رضي اللّٰه عنه قال: کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم إذا استجد ثوبًا لبسه یوم الجمعة."
( جماع أبواب سیرته ﷺ في لباسه، ج:7، ص:269، ط:دار الکتب العلمیه)
تحفۃ الفقہاء میں ہے:
"وأما الرابع في بيان ما يستحب في يوم الجمعة فنقول السنة والمستحب فيه أن يدهن ويمس طيبا إن وجد ويلبس أحسن ثيابه ويغتسل."
(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، ج:1، ص:163، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في البحر: وظاهر كلامهم تقديم الأحسن من الثياب في الجمعة والعيدين وإن لم يكن أبيض."
(كتاب الصلاة، باب العيدين، ج:2، ص:165، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144409100981
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن