بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خریدی ہوئی چیز کا حکم سودا ختم کرے یا نہیں؟


سوال

 جمعہ کے دن پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت کرنے کا کیا حکم ہے آیا وہ خریدی ہوئی چیز واپس کرنی پڑے گی؟

جواب

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد سے جمعہ کی نماز ختم ہونے تک   خرید و فروخت کا معاملہ کرنا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے، اگر سودا کرلیاگیاہے تو بائع اور مشتری کو ایک ناجائز معاملہ کرنے کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ  دیانۃً گناہ سے بچنے کے لیے سودا ختم کرناچاہیے،  البتہ اگر مذکورہ معاملہ ختم نہیں کیا گیا تو خریدار اس چیز کا مالک بن جائےگا، نیز بائع قیمت کا مالک بن جائےگا، لیکن  ایک ناجائز کام کرنے کا گناہ بائع اور مشتری دونوں پر ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) تحريمًا منع الصحة (البيع عند الأذان الأول).

(قوله: وكره تحريمًا مع الصحة) أشار إلى وجه تأخير المكروه عن الفاسد مع اشتراكهما في حكم المنع الشرعي والإثم، وذلك أنه دونه من حيث صحته وعدم فساده؛ لأن النهي باعتبار معنى مجاور للبيع لا في صلبه ولا في شرائط صحته، ومثل هذا النهي لايوجب الفساد بل الكراهية كما في الدرر. وفيها أيضًا أنه لايجب فسخه ويملك المبيع قبل القبض ويجب الثمن لا القيمة. اهـ لكن في النهر عن النهاية أن فسخه واجب على كل منهما أيضًا صونًا لهما عن المحظور، لأن رفع المعصية واجب بقدر الإمكان اهـ. قلت: و يمكن التوفيق بوجوبه عليهما ديانةً. بخلاف البيع الفاسد، فإنهما إذا أصرا عليه يفسخه القاضي جبرًا عليهما. و وجهه أن البيع هنا صحيح و يملك قبل القبض و يجب فيه الثمن لا القيمة، فلايلي القاضي فسخه لحصول الملك الصحيح."

(باب البيع الفاسد، ج:5، ص:105، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وكره البيع عند أذان الجمعة والمعتبر الأذان بعد الزوال، كذا في الكافي."

(الفتاوى الهندية (3/ 211)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں