بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی نماز خطیب کے علاوہ صرف خطبہ جمعہ میں شریک شخص ہی پڑھا سکتا ہے


سوال

کیا جمعے کے دن ایسا ہو سکتا ہے کہ مسجد کا مستقل امام جو عالم دین ہے صرف خطبہ دے اور جماعت کوئی اور کروائے؟

جواب

جمعہ کا خطبہ نماز جمعہ کے لیے شرط کی حیثیت رکھتا ہے ؛ اس لیے افضل وبہتر یہ ہے کہ نماز جمعہ میں جو عربی خطبہ پڑھے وہی نماز جمعہ پڑھائے ، البتہ چوں کہ صحت نماز کے لیے خطیب اور امام دونوں کا ایک ہونا شرط نہیں؛ اس لیے اگر خطبہ دینے والا کوئی اور ہو اور نماز جمعہ کی امامت کوئی دوسرا شخص کرے تو مختار قول کے مطابق جائز و درست ہے،خطیب کے علاوہ کسی اور شخص کے جمعہ پڑھانے سے نماز مکروہ نہیں ہوگی،البتہ بلا ضرورت اس طرح کرنا خلافِ اولی ہے،البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ خطیب کے علاوہ جمعہ کی نماز کی امامت صرف وہی شخص کرسکتا ہے،جو خطبہ کے دوران موجودہو،خواہ پورے دوخطبوں کے دوران یا خطبے کے کسی حصےمیں۔ 

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"‌‌استحباب كون الخطيب والإمام واحدا:

32 - يستحب أن لا يؤم القوم إلا من خطب فيهم؛ لأن الصلاة والخطبة كشيء واحد (2) ، قال في تنوير الأبصار: فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان وصلى بالغ جاز (3) ، غير أنه يشترط في الإمام حينئذ أن يكون ممن قد شهد الخطبة. قال في البدائع: ولو أحدث الإمام بعد الخطبة قبل الشروع في الصلاة فقدم رجلا يصلي بالناس: إن كان ممن شهد الخطبة أو شيئا منها جاز، وإن لم يشهد شيئا من الخطبة لم يجز، ويصلي بهم الظهر، وهو ما ذهب إليه جمهور الفقهاء."

(حرف الصاد، صلاة الجمعة،‌‌المستحبات من كيفية أداء الجمعة،‌‌استحباب كون الخطيب والإمام واحدا، ج:27، ص:206،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا ينبغي أن يصلي غير الخطيب) لأنهما كشيء واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان وصلى بالغ جاز) هو المختار.

(قوله لأنهما) أي الخطبة والصلاة كشيء واحد لكونهما شرطا ومشروطا ولا تحقق للمشروط بدون شرطه فالمناسب أن يكون فاعلهما واحدا ط."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، ج:2، ص:162، ط: سعيد)

وفيها أيضا:

"[تنبيه]في البحر عن المجتبى يشترط في الخطيب أن يتأهل للإمامة في الجمعة اهـ لكن ذكر قبله ما يخالفه حيث قال وقد علم من تفاريعهم أنه لا يشترط في الإمام أن يكون ‌هو ‌الخطيب وقد صرح في الخلاصة بأنه لو خطب صبي بإذن السلطان وصلى الجمعة رجل بالغ يجوز. اهـ. وسيذكر الشارح أن هذا هو المختار."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، ج:2، ص:147، ط: سعيد)

وفيها أيضا:

"ولا ينبغي أن يصلي ‌غير ‌الخطيب لأن الجمعة مع الخطبة كشيء واحد فلا ينبغي أن يقيمها اثنان وإن فعل جاز اهـ"

(کتاب الصلاة،باب الجمعة،ج2،ص141،ط؛سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100804

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں