بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی ادا کے شرائط


سوال

ہمارے گاؤں کی آبادی تقریباً ایک ہزارافراد /150 گھروں پر مشتمل ہے ،قریب ایک بالکل چھوٹا سا گاؤں ہے وہاں کی مسجد میں نماز جمعہ پچھلے تین سال سے پڑھائی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے گاؤں کے افراد مولانا صاحب سے تقاضا کر رہے ہیں ،کہ آپ بھی نماز جمعہ شروع کروائیں،برائے مہربانی نماز جمعہ کی شرائط بیان فرما کر ہماری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کی پانچ شرائط ہیں :

۱۔ شہر یا قصبہ یا اس کا فنا(مضافات) ہونا۔

۲۔  ظہر کا وقت ہونا۔

۳۔  ظہر  کے وقت میں نمازِ  جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا۔

۴۔ جماعت یعنی امام کے علاوہ  کم از   کم تین بالغ مردوں کا خطبے کی ابتدا سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود رہنا۔

۵۔اذنِ عام (یعنی نماز قائم کرنے والوں کی طرف سے نماز میں آنے والوں کی اجازت) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔

واضح رہے کہ جمعہ کے قیام  کے لیے شہر /قصبہ /قریہ کبیرہ کا ہو نا شرط ہے جس کی مجموعی آبادی کم ازکم اڑھائی تین ہزار افراد پر مشتمل  ہو اور وہاں روز مرہ کی ضروریات کی تمام چیزیں ملتی  ہوں ، علاج معالجہ کی سہولت میسر  ہو ،ڈاک خانہ وغیرہ  موجود ہو،مظلوم کو انصاف دلانے،پیش آمدہ مقدمات کو نمٹانے  کیلیے قاضی مقرر ہو،تو ایسی جگہ میں جمعہ  کی نماز قائم  کرنا جائز ہے،اور جہاں مذکورہ بالا شرائط نہ پائی جائیں وہاں جمعہ  كي نماز کا قیام جائز نہیں ۔

            مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورت ِ مسئولہ میں ذکر کردہ گاؤں میں  مذکورہ بالا شرائط نہیں پائی جارہی ہیں ، کیوں کہ مذکورہ گاؤں کی آبادی اڑھائی تین ہزار سے کم ہے،لہذا جب تک مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی نماز کے قیام کی مذکورہ بالا شرائط نہ  پائی جائیں تو اس وقت تک گاؤں والوں   کے لیے مضافات میں مختلف گاؤں میں پڑھی جانے والی جمعہ کی نماز کو بنياد بنا  کر اپنے گاؤں میں جمعہ کی نماز قائم کرنا جائز نہیں ،کیوں کہ ہر ايك گاؤں  موضع مستقل ہے،بلکہ ان پر ظہر کی نماز ادا کرنا لازم ہے ۔

رد المحتار میں ہے:

"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لايسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء، مجتبى؛ لظهور التواني في الأحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض قدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى. وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعاً عليه فليحفظ.

 (قوله: ويشترط إلخ) قال في النهر: ولها شرائط وجوباً وأداءً منها: ما هو في المصلى. ومنها ما هو في غيره والفرق أن الأداء لايصح بانتفاء شروطه ويصح بانتفاء شروط الوجوب ونظمها بعضهم فقال:وحر صحيح بالبلوغ مذكر ... مقيم وذو عقل لشرط وجوبها           ومصر وسلطان ووقت وخطبة ... وإذن كذا جمع لشرط أدائها

ط عن أبي السعود (قوله: ما لايسع إلخ) هذا يصدق على كثير من القرى ط (قوله: المكلفين بها) احترز به عن أصحاب الأعذار مثل النساء والصبيان والمسافرين ط عن القهستاني (قوله: وعليه فتوى أكثر الفقهاء إلخ) وقال أبو شجاع: هذا أحسن ما قيل فيه. وفي الولوالجية وهو صحيح بحر، وعليه مشى في الوقاية ومتن المختار وشرحه وقدمه في متن الدرر على القول الآخر، وظاهره ترجيحه وأيده صدر الشريعة بقوله: لظهور التواني في أحكام الشرع سيما في إقامة الحدود في الأمصار (قوله: وظاهر المذهب إلخ) قال في شرح المنية.والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـ إلا أن صاحب الهداية ترك ذكر السكك والرساتيق؛ لأن الغالب أن الأمير والقاضي الذي شأنه القدرة على تنفيذ الأحكام وإقامة الحدود لايكون إلا في بلد كذلك. اهـ. (قوله: له أمير وقاض) أي مقيمان فالاعتبار بقاض يأتي أحياناً يسمى قاضي الناحية ولم يذكر المفتي اكتفاءً بذكر القاضي؛ لأن القضاء ........"

 ( کتاب الصلوة، باب باب الجمعة، ج:2 ص:137 ط:سعيد)

بدائع الصنائع   میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت."

(کتاب الصلوة، فصل: بيان شرائط الجمعة، ج:1 ص:259  ط:دار الکتب العلمیة)

بدائع الصنائع في   میں ہے:

"فأما إذا لم يكن إمامًا بسبب الفتنة أو بسبب الموت ولم يحضر وال آخر بعد حتى حضرت الجمعة ذكر الكرخي أنه لا بأس أن يجمع الناس على رجل حتى يصلي بهم الجمعة."

(کتاب الصلوة، فصل: بيان شرائط الجمعة، ج:1 ص:261  ط:دار الکتب العلمیة )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں