بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی جماعت نہ ملے تو ظہر کی نماز پڑھنی ہوگی


سوال

اگر نماز جمعہ با جماعت نہ  پڑھی جا سکے تو فرائض کی تعداد کیا ہوگی اور پھر کیا اسے نماز جمعہ کہا جائے گا یا نماز ظہر؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ دین اسلام میں جمعہ کی نماز کی بڑی اہمیت ہے،  جمعہ کی نماز فرض ہے اور بلاعذر جمعہ کی نماز ترک کرنے والا سخت گناہ گار ہے،تاہم اگر کسی عذر کے بنا پر جمعہ   کی نماز جماعت کے ساتھ نہ ملی، تو پھر تنہا  ظہر کی  مکمل نماز  (چار سنتیں قبلیہ، چار فرائض، اور دو سنت بعدیہ)، پڑھنی ہوگی، جو نماز ظہر شمار ہوگی، اور فرائض کی تعداد وہی ظہر کے چار رکعات ہوگی،اور اگر ظہر کا وقت  ختم ہوچکا ہو تو   ظہر کی چار رکعت فرض قضا پڑھنی ہوگی۔

مشكاة المصابيح میں ہے :

" عن ابن عمر وأبي هريرة أنهما قالا : سمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على أعواد منبره : " لينتهين أقوام عن ودعهم الجمعات أو ليختمن الله على قلوبهم ثم ليكونن من الغافلين ."

"ترجمہ:  حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منبر کی لکڑی (یعنی اس کی سیڑھیوں)  پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ نمازِ جمعہ کو چھوڑنے سے باز رہیں،  ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ غافلوں میں شمار ہونے لگیں گے۔"

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، الفصل الأول، ج:1، ص:433، الرقم:1370، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

وفیہ ایضاً:

" وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من ترك الجمعة من غير ضرورة كتب منافقًا في كتاب لايمحى و لايبدل". وفي بعض الروايات: ثلاثًا".

" ترجمہ: حضرت عبداللہ  بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو آدمی بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ چھوڑ دیتا ہے وہ ایسی کتاب میں منافق لکھا جاتا ہے جو نہ کبھی مٹائی جاتی ہے اور نہ تبدیل کی جاتی ہے‘‘.  اور بعض روایات میں یہ ہے کہ ’’جو آدمی تین جمعے چھوڑ دے۔"

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، الفصل الثالث، ج:1، ص:435، الرقم:1379، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

سنن أبي داود ـ میں ہے:

"عن أبى الجعد الضمرى - وكانت له صحبة - أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال  من ترك ثلاث جمع تهاونًا بها طبع الله على قلبه."

"ترجمہ:  حضرت  ابی  الجعد  ضمیری راوی  ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو آدمی محض سستی و کاہلی کی بنا پر تین جمعے چھوڑ دے گا،  اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔"

(كتاب الصلوة، ‌‌باب التشديد في ترك الجمعة، ج:1، ص:407، الرقم:1052، ط:المطبعة الأنصارية بدهلي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة."

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:2، ص:157، ط:سعید)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"(قوله: ويكره أن يصلي المعذور الظهر بجماعة) قبل الجمعة، وكذا بعدها، ومن ‌فاتتهم ‌الجمعة فصلوا الظهر تكره لهم الجماعة أيضا."

(كتاب الصلوة، باب صلاة  الجمعة، ج:2، ص:65، ط:دار الفكر، لبنان)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"من لا تجب عليهم الجمعة من أهل القرى والبوادي لهم أن يصلوا الظهر بجماعة يوم الجمعة بأذان وإقامة والمسافرون إذا حضروا يوم الجمعة في مصر يصلون فرادى وكذلك أهل المصر إذا ‌فاتتهم ‌الجمعة وأهل السجن والمرض ويكره لهم الجماعة، كذا في فتاوى قاضي خان وجازت بمنى في الموسم للخليفة أو لأمير الحجاز لا لأمير الموسم، كذا في الوقاية."

(‌‌كتاب الصلوة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة،  ج:1، ص:145، ط:دار الفكر)

فقط واللہ آعلم


فتوی نمبر : 144504101857

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں