بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کے لیے گاؤں کی مسجد چھوڑ کر بازار کی مسجد جانا


سوال

کیا جمعہ کی نماز کیلے اپنے گاؤں کی مسجد کو چھوڑ کر  جمعہ کی جماعت کے لیے بازار کی  کسی بڑی مسجد میں جا سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ گاؤں کی کل آبادی ڈھائی ہزار افراد پر مشتمل نہ ہو، اور وہاں ضروریات زندگی کے اسباب میسر نہ ہوں تو ایسی صورت میں اس گاؤں میں جمعہ کی نماز قائم کرنے کی اجازت نہ ہوگی، اور نہ ہی وہاں کے باشندوں پر جمعہ واجب ہوگا، اور نہ ہی وہاں کے باشندوں کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے شہر جانے کی ضرورت ہے،  بصورتِ دیگر اگر مذکورہ گاؤں کی آباد ڈھائی ہزار یا اس سے زیادہ ہو،  اور وہاں ضروریات زندگی کے اسباب میسر ہوں تو اس گاؤں میں جمعہ ادا کرنے کی شرعاً اجازت ہوگی، اور وہاں کے باشندوں کے لیے اپنے گاؤں کی مسجد میں ہی جمعہ کی  نماز پڑھنا  افضل ہوگا، اس لیے کہ  گاؤں  کی مسجد کو آباد کرنا وہاں کے رہنے والوں پر مسجد کا  حق ہوتاہے، لہذا گاؤں  والوں کو چاہیے کہ  اپنے گاؤں  کی مسجد کا حق ادا کریں اور اس میں نماز پڑھ کر اس کو آباد کریں، بلا وجہ اسے چھوڑ کر  کسی اور  جگہ  کی مسجد میں نما ز یا جمعہ کے لیے جانا اچھا نہیں ہے، اگرچہ بازار کی مسجد میں جاکر جمعہ ادا کرنے سے بھی جمعہ ادا ہوجائے گا۔

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

رجل يصلي في الجامع لكثرة الجمع ولايصلي في مسجد حيه فإنه يصلي في مسجد منزله و إن كان قومه أقل، وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يؤذن ويصلي ... فالأفضل أن يصلي في مسجده ولايذهب إلي مسجد آخر.

(خلاصة الفتاوی،ج:1، ص:228، ط:المکتبة الرشیدیة)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

لأن لمسجد منزله حقًّا عليه فيؤدي حقه.

(قاضیخان علی هامش الفتاوی الهندية، ج:1، ص:27، ط:مکتبة حقانیة)

خلاصة الفتاوی میں ہے:

في الجامع الصغير: إذا كان إمام الحي زانيًا أو آكل الربوا له أن يتحول إلى مسجد آخر.

(خلاصة الفتاوی، ج:1، ص:228، ط:المکتبة الرشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200647

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں