بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی اذان ثانی کے بعد بھی مسجد نہ جانے والے کا حکم


سوال

جمعہ کی دوسری اذان کے بعد بھی اگر کوئی مسجد  نہیں آتا تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کی پہلی اذان کے بعد ہی  سعی الی الجمعۃ  یعنی  جمعہ کی نماز کے لیے جانا واجب ہے، لہذا  پہلی اذان کے بعد  سے  کسی ایسے دنیاوی کام میں مشغول ہونا جو جمعہ کی سعی سے متعلق نہ ہو جائز نہیں ہے، اس لیے جو دنیاوی کسی کام مشغول ہوجانے کی وجہ سے یا بلا کسی عذر  جمعہ کی نماز کے لیے نہیں جاتا وہ گناہ گار ہوگا، خصوصا جب اذان ثانی کے بعد بھی نہیں جاتا، تو برا اور زیادہ باعث قباحت ہے۔

ارشادی باری تعالیٰ ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (9)}

"ترجمہ:اے ایمان والو جب جمعہ کے روز نماز (جمعہ) کے لئے اذان کہی جایا کرے تو تم اللہ کی یاد (یعنی نماز وخطبہ) کی طرف (فوراً ) چل پڑا کرو اور خریدو فروخت (اور) اسیطرح دوسرے مشاغل جو چلنے سے مانع ہوں) چھوڑ دیا کرو   یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم کو کچھ سمجھ ہو (کیونکہ اس کا نفع باقی ہے اور بیع وغیرہ کا فانی )۔"

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال: وينبغي ‌أن ‌لا ‌يجيب بلسانه اتفاقا في الأذان بين يدي الخطيب، وأن يجيب بقدمه اتفاقا في الأذان الأول يوم الجمعة لوجوب السعي بالنص"

(کتاب الصلاۃ ،باب اذان ،ج:1 ،ص:399،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ووجب ‌سعي ‌إليها وترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزرا (بالأذان الأول) في الأصح وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان. وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريما...قوله ووجب سعي) لم يقل افترض مع أنه فرض للاختلاف في وقته هل هو الأذان الأول أو الثاني أو العبرة لدخول الوقت؟ بحر.

وحاصله أن السعي نفسه فرض والواجب كونه في وقت الأذان الأول، وبه اندفع ما في النهر من أن الاختلاف في وقته لا يمنع القول بفرضيته كصلاة العصر فرض إجماعا مع الاختلاف في وقتها (قوله وترك البيع) أراد به كل عمل ينافي السعي وخصه اتباعا للآية نهر (قوله: ولو مع السعي) صرح في السراج بعدم الكراهة إذا لم يشغله بحر وينبغي التعويل على الأول نهر.

قلت: وسيذكر الشارح في آخر البيع الفاسد أنه لا بأس به لتعليل النهي بالإخلال بالسعي فإذا انتفى انتفى (قوله: وفي المسجد) أو على بابه بحر (قوله في الأصح) قال في شرح المنية. واختلفوا في المراد بالأذان الأول فقيل الأول باعتبار المشروعية وهو الذي بين يدي المنبر لأنه الذي كان أولا في زمنه عليه الصلاة والسلام وزمن أبي بكر وعمر حتى أحدث عثمان الأذان الثاني على الزوراء حين كثر الناس. والأصح أنه الأول باعتبار الوقت، وهو الذي يكون على المنارة بعد الزوال."

(کتاب الصلاۃ ،باب باب الجمعة ،ج:2،ص:161،ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ويجب ‌السعي وترك البيع بالأذان الأول، وقال الطحطاوي: يجب ‌السعي ويكره البيع عند أذان المنبر وقال الحسن بن زياد المعتبر هو ‌الأذان على المنارة والأصح أن كل أذان يكون قبل الزوال فهو غير معتبر والمعتبر أول ‌الأذان بعد الزوال سواء كان على المنبر أو على الزوراء، كذا في الكافي."

(كتاب الصلوة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، ج:1، ص:149، ط:دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"وكره البيع عند أذان الجمعة والمعتبر الأذان بعد الزوال كذا في الكافي."

(كتاب البيوع ، الباب العشرون في البياعات المكروهة والأرباح الفاسدة، ج:3، ص:211، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102728

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں