بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹ بولنے کے بعد اللہ سے معافی مانگنا


سوال

 کزن نے بچوں کے سکول کی درخواست دی،  سکول منظور ہو گیا،  ایک دن سکول چیک کرنے والے افسر آئے تو سکول آگے سے بند تھا،  انہوں نے میرے کزن سے پوچھا کہ سکول کیوں بند تھا،  تو اس نے جھوٹ بول دیا کہ میری نانی فوت ہو گئی تھی ، تو انہوں نے کہا کہ آپ مسجد میں جا کر گواہی دیں کہ آپ کی نانی فوت ہو گئی تھی ، تو میرے کزن نے مسجد میں بیٹھ کر  جھوٹ بول دیا کہ میری نانی فوت ہوئی تھی ، حالانکہ نانی فوت نہیں ہوئی تھی،  اب وہ کیا کرے،  کیا اللہ تعالی سے  معافی مانگنے سے اس کی معافی قبول ہوجائے گی؟

جواب

واضح رہے کہ جھوٹ بولنا شریعت مطہرہ میں اکبر الکبائر (بڑے گناہوں ) میں شمار کیا جاتا ہے ، اور جھوٹ بولنا حرام ہے ، ایک روایت میں آتا ہے ، کہ   یقیناً جھوٹ   فجور (نافرمانی/ گناہ) کی رہنمائی کرتا ہے اور  فجور جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اللہ کے یہاں ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے، اس طرح ایک روایت میں جھوٹ کو منافق کی نشانی بتائی گئی ہے ، لہذاانسان کو جھوٹ بولنے سے اجتناب کرنا چاہیے ، لہذا سائل کا کزن اگر صدق دل سے توبہ کرے اور آئندہ جھوٹ نہ بولنے کا عزم کرے اور اب تک جو جھوٹ بولا ہے اس پر نادم ہو ، تو اللہ رب العزت سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اس گناہ کو معاف فرمادیں گے ، البتہ اگر جھوٹ بولنے کی وجہ سے حقوق العباد میں سے کسی کا  حق ضائع ہوا ہو تو اسے اس کی اطلاع کرکے اس کا حق ادا کرنا ضروری ہے، صرف معافی مانگنے سے حق ساقط نہیں ہوگا۔

صحیح مسلم میں ہے :

".........وإن الكذب يهدي إلى الفجور. وإن الفجور يهدي إلى النار. ‌وإن ‌الرجل ‌ليكذب حتى يكتب كذابا".

(كتاب البر والصلة والآداب  ، باب قبح الكذب، وحسن الصدق، وفضله ج:4 ص:2012ط:دار إحياء التراث العربي)

وفیہ ایضا:

"عن ‌عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن ‌أبيه رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "ألا ‌أنبئكم ‌بأكبر ‌الكبائر، ثلاثا، قالوا: بلى يا رسول الله، قال: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين وجلس وكان متكئا، فقال ألا وقول الزور"  قال: فما زال يكررها حتى قلنا: ليته سكت".

(‌‌‌‌كتاب الشهادات ، باب ما قيل في شهادة الزور ج:3 ص:172  ط:دار طوق النجاة)

صحیح البخاری میں ہے :

"حدثنا نافع بن مالك بن أبي عامر أبو سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان ".

(کتاب الإيمان ، باب علامة  المنافق  ج: 1 ص: 16 ط: دار طوق النجاة)

روح المعانی میں ہے :

"وقال الإمام النووي: التوبة ما ‌استجمعت ‌ثلاثة ‌أمور: أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما على أن لا يعود إلى مثلها أبدا فإن كانت تتعلق بآدمي لزم رد الظلامة إلى صاحبها أو وارثه أو تحصيل البراءة منه، وركنها الأعظم الندم.وفي شرح المقاصد قالوا: إن كانت المعصية في خالص حق الله تعالى فقد يكفي الندم كما في ارتكاب الفرار من الزحف وترك الأمر بالمعروف، وقد تفتقر إلى أمر زائد كتسليم النفس للحد في الشرب وتسليم ما وجب في ترك الزكاة، ومثله في ترك الصلاة وإن تعلقت بحقوق العباد لزم مع الندم، والعزم إيصال حق العبد أو بدله إليه إن كان الذنب ظلما كما في الغصب والقتل العمد، ولزم إرشاده إن كان الذنب إضلالا له، والاعتذار إليه إن كان إيذاء كما في الغيبة إذا بلغته ولا يلزم تفصيل ما اغتابه به إلا إذا بلغه على وجه أفحش..... الخ".

(سورۃ التحریم ج: 14 ص: 353 ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102188

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں