بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جدائی کے بعد بچوں کے نفقہ کا مسئلہ


سوال

میں نے چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر اپنی بیوی کو طلاق دےدی، میرےتین بچے اس کےپاس ہیں، اب اس عورت نےاسی آدمی سے جس سےاس کےناجائزاور خلافِ شرع مراسم ہوگئے  تھے، شادی کرلی ہے، (طلاق کی وجوہات بھی یہ ہیں کہ اس آدمی کو اس عورت نے میرے پیچھے گھرمیں بلایااور میرےسامنے بھائی بہن ظاہر کیا،پھر میرے پیچھے میرے مال میں سےعورت نےخیانت کی اور اس آدمی اور اس شخص کےگھرکاخرچہ میری تنخواہ میں سےاس نےچلایا اورڈرائیور  کی تنخواہ الگ اس نےاپنےزور زبردستی سےمقررکراوائی تھی جوکہ بہت زیادہ تھی،یعنی میرےمال کوڈیڑھ سال تک برےطریقے سےخرچ کیاگیا،مجھےبہت مجبورکردیاگیا، یہاں تک کہ میں فیصلہ کرنےکےقابل بھی نہ رہا،میری بڑی بچی کوبھی اس عورت نےخراب کردیا)

میرے بچوں کی آڑ میں وہ عورت ناجائز پیسوں کامطالبہ کررہی ہے، جب کہ بچوں کی عادتیں اتنی خراب کردی ہیں کہ میرےساتھ رہنےکےاورخاندان کےساتھ رہنےکےقابل نہیں رہے، پوچھنایہ ہےکہ ان تمام حالات میں کیاکیاجاۓ؟ کیامیرےبچے اب شرعی طور پراس آدمی کی ذمہ داری ہیں؟ ان ہی لوگوں نےطلاق کےبعد مجھ پرالٹاعدالت میں کیس کردیاتھا، اور ہربچےکےعوض 50 ہزار کامطالبہ کررہے تھے، جس کااداکرنا میرے لیے مشکل تھا، بہرحال عدالت میں کیس چلااورفیصلہ ان کےحق میں نہیں ہوا، بچوں کی تحویل کے لیے ہم نےبھی عدالت میں کیس کیے،مگر ان لوگوں نےمیرےخلاف اور میری بڑی بہن کےخلاف اغوا براۓ تاوان کا ایک ڈراما رچاکر تھانےمیں ایک ناجائز ایف آئی آر کٹوادی،  جسے ہم نےاپنےدفاع کی خاطر آگےتک مقابلہ کیا۔ بہرحال عدالت نےان کےخلاف فیصلہ دےدیا،ہم اور ہمارےخاندان والےاس جھگڑےکو آگےتک لےجانا نہیں چاہتےتھے،لہٰذا ہمارےخاندان کےلوگوں نےان سےمل کر سارے معاملات کو افہام وتفہیم سےکچھ  دے دلاکررفع دفع کروایا اورعدالتوں سےہم نےاپنےتمام مقدمےواپس لےلئے۔

مگر  ابھی تک اس عورت اور اس کےموجودہ شوہر کےشر سےبچنامشکل ہورہاہے، اور وہ لوگ بچوں کو اپنےمفاد کے لیے حیلہ بنارہےہیں۔

1-  اس تمام صورتِ حال میں کیاکیاجاۓ؟  بہرحال بچوں کےبارےمیں بتائیے کہ کیا کرنا چاہیے؟ جب کہ بڑی بیٹی کی عمر  12 سال ہے،درمیانی بیٹی کی عمر 9سال ہے،اورسب سےچھوٹابیٹاہے، جس کی عمر چار سال ہے،جب کہ بچوں کی تعلیم کااور اسکول وین کاخرچہ میں پہلےہی برداشت کرتاہوں، اور بچوں کاماہانہ خرچہ اپنی حسبِ حیثیت میں برداشت کرہاہوں،جسے وہ دونوں میاں بیوی اپنے مفاد کی خاطر بڑھواناچاہتےہیں، ماضی میں جوکچھ ہوچکاہے؛ اس لیے  ان لوگوں پراس پیسوں کےمعاملےمیں کوئی اطمینان نہیں۔ جب کہ میری بھی شادی ہوچکی ہے، اور میری دوغیرشادی شدہ بہنیں اور بوڑھی والدہ ہیں، اس عورت کی خدمت کی وجہ سےمجھےاپنےخاندان کےلوگوں کاحق نبھانا بھی مشکل ہوگیاتھا؛ کیوں کہ میرےمال کاناجائزاستعمال کیاگیا۔ میں ایساہرگز نہیں چاہتاتھااورمیں ایساہرگز نہیں ہوں۔

2- طلاق کو دوسال ہوچکےہیں،  وہ لوگ بہت چالاک اور جھوٹ بولنےوالےلوگ ہیں، ان کےشر سےبچنے کے لیے کوئی خاص دعا بتائیے!

جواب

اللہ تبارک و تعالیٰ آپ  اور تمام مسلمانوں کو عافیت کی دولت سے مالا مال فرمائے!

نابالغ بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری والد پر ہی ہے، اور بلوغت کے بعد جب تک اولاد کمانے کے قابل نہ ہو ان کے نفقہ کی ذمہ داری بھی شرعاً  والد پر ہی ہوتی ہے، والدہ اگر دوسری شادی کرلے تب بھی نفقہ حقیقی والد ہی کے ذمہ ہوتاہے، البتہ  میاں بیوی کے درمیان جدائی کی صورت   والد کی حیثیت کے مطابق بچوں کا نفقہ مقرر کیا جاتاہے، اس سے زائد کا مطالبہ کرنا درست نہیں،  نیز لڑکا جب سات سال کا اور لڑکی جب نو سال کی ہوجائے تو اس صورت میں ان کی پروش و تربیت کا شرعی حق والد کو ہے، مقررہ عمر مکمل ہوجانے کے بعد ماں کا بچے اپنے پاس رکھنا شرعاً درست نہیں؛ لہذا سائل اپنی دونوں بیٹیوں کو  جن کی عمر بالترتیب 12 اور 9 سال ہے اپنی پرورش میں لینے کا شرعی وقانونی حق رکھتاہے۔

نیز آپ کے سابقہ سوال کے جواب میں جاری کردہ  فتویٰ  بتاریخ (2018-10-28) میں بتادیا گیا تھا کہ والدہ کو مذکورہ عمر تک پرورش کا حق اس وقت تک ہوتاہے جب تک والدہ بچوں کے غیر محرم سے شادی نہ کرلے، اور ماں کی پرورش میں ہوتے ہوئے یہ خوف نہ ہو کہ بچوں کا کردار متاثر ہوسکتاہے،  جب کہ اب بیان کردہ صورتِ حال کے مطابق مذکورہ عورت ایک اجنبی شخص سے شادی بھی کرچکی ہے اور بچوں کے اخلاقی بگاڑ اور کردار متاثر ہونے کا خطرہ ہے، تو اس صورت میں چار سالہ بیٹے کی تربیت کا حق بھی اس عورت کو نہیں ہوگا، بلکہ بچے کی نانی کو یہ حق حاصل ہوگا، اور وہ بھی نہ ہو تو بچے کی دادی کو پرورش کا حق ہوگا۔

2- ہر نمازکے بعد آیۃ الکرسی پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کریں، نیز اپنے مخالفین سے تحفظ کی غرض سے درج ذیل دعا کثرت سے پڑھیں، جیساکہ حدیثِ مبارک میں بھی یہ پڑھنا ثابت ہے:

’اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُبِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ‘‘.

اسی طرح صبح و شام درج ذیل دعائیں ایک ایک مرتبہ پڑھنے کا اہتمام کریں:

1-  ’’أَعُوْذُ بِوَجْهِ اللهِ الْعَظِیْمِ الَّذِيْ لَیْسَ شَيْءٌ أَعْظَمَ مِنْهُ وَبِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ الَّتِيْ لَایُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَافَاجِرٌ، وَبِأَسْمَآءِ اللهِ الْحُسْنیٰ کُلِّهَا مَاعَلِمْتُ مِنْهَا وَمَالَمْ أَعْلَمْ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَبَرَأَ وَذَرَأَ‘‘.

2- ’’أَعُوْذُ بِوَجْهِ اللهِ الْکَرِیْمِ وَبِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ اللَّاتِيْ لَایُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَافَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَایَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمِنْ شَرِّ مَا یَعْرُجُ فِیْهَا، وَشَرِ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَشَرِّ مَا یَخْرُجُ مِنْهَا، وَمِنْ فِتَنِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَمِنْ طَوَارِقِ اللَّیْلِ وَالنَّهَارِ إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَارَحْمٰن‘‘. 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة". (الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد". (١/ ٥٦١)

و فيه أيضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (١/ ٥٦٢) فقط والله أعلم

سابقہ جواب اور اپنے مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

طلاق کے بعد بچوں کا حق دار کون ہے؟


فتوی نمبر : 144108200800

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں