بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس گاؤں میں فرنیچروالا، پکوان، اور معمار نہ ہواس گاؤں میں جمعہ کی نماز کا حکم


سوال

 ایک عالم نے  گاؤں والوں کو کہا ہے کہ آپ کے گاؤں میں ترکھان اور گلکار اور دیگمار  نہیں ہے؛ لہذا آپ یہاں مسجد میں جمعہ کی نماز نہ پڑھیں،  کہیں اور جاکر نماز پڑھے؟

جواب

واضح رہےجمعہ کی نماز جائز ہونےکے لیے اس جگہ کا مصر ہونا یا فنائے مصر کا ہونا یا قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں) کا ہونا شرط ہے، قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم  ڈھائی تین  نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں  میں روز مرہ  کی تمام اشیاء مثلاً کھانے پینے کی اشیاء، طبی سہولیات، قانونی تقاضے، اور تعلیمی سہولیات وغیرہ  با آسانی مل جاتی ہوں، اور جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں  (یعنی گاؤں کی آبادی بھی کم ہے، اور روزِ مرّہ کی ضروریات پوری کرنے کے  لیے کسی اور شہر میں جانا پڑے)تو اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔

بصورتِ  مسئولہ اگر مذکورہ گاؤں  مجموعی آبادی کے اعتبار سے تین  ہزار آبادی پر مشتمل ہے، اور اس  گاؤں میں روز مرّہ  ضروریات زندگی  کی تمام اشیاء  بھی پوری ہورہی  ہیں(جس کا اندازہ عرف اور تمدن کے اعتبار سے کیا جاتا ہے)  تو مذکورہ گاؤں میں قریہ کبیرہ  ہونے کی وجہ سے  جمعہ کی نماز جائز ہے،  تاہم ترکھان (فنیچر والا)،  دیگمار(پکوان)،  گِل کار( معمار)  روزِ مرّہ کی ضروریات میں شامل نہیں ہے۔

ملحوظ رہے جس علاقہ میں  عرصہ دراز سے جمعہ کی نماز قائم کی جارہی ہو اور شرائط جمعہ نہ پائے جانے کی وجہ سے جمعہ بند کرانے کی صورت میں لوگوں کے درمیان فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو اس جگہ بدستور جمعہ کی نماز پڑھی جاسکتی ہے، جمعہ کی نماز ادا کرکے ظہر کی نماز ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔

البناية شرح الهداية  میں ہے:

"(والمصر الجامع كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود) ش: هذا تفسير المصر الجامع، وقد اختلفوا فيه، فعن أبي حنيفة: هو ما يجتمع فيه مرافق أهله دنيا ودينا.

وعن أبي يوسف: كل موضع فيه أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر تجب على أهله الجمعة، وهكذا روى الحسن عن أبي حنيفة في كتاب صلاته وفيه أيضا، قال سفيان الثوري: المصر الجامع: ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة كبخارى وسمرقند.

وقال الكرخي: المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود، ونفذت فيه الأحكام، وهو اختيار الزمخشري، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما سمعت إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم فلم يسعهم فهو مصر جامع، وعن أبي حنيفة: هو بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، ويرجع الناس إليه فيما وقعت لهم من الحوادث، وهو اختيار صاحب " التحفة ".

وقال أبو يوسف في " نوادر ابن شجاع ": إذا كان في القرية عشرة آلاف فهو مصر، وعن بعض أصحابنا: المصر ما يعيش فيه كل صانع بصناعته ولا يحتاج إلى التحول إلى صنعة أخرى.

وفي " المستصفى ": أحسن ما قيل فيه إذا وجدت فيه حوائج الدين وهو القاضي والمفتي والسلطان فهو مصر جامع، وعن أبي حنيفة: المصر كل بلدة فيها سكك وأسواق ووال ينصف المظلوم من ظالمه وعالم يرجع إليه في الحوادث وهو الأصح."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجمعة، شروط صحة الجمعة، صلوة فى القرى، ج:3، ص:45، ط:دارالكتب العلمية) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144206200417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں