بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ پر زکات اور قربانی


سوال

میں ایک سرکاری ملازم ہوں،تو کیا میری ماہانہ تنخواہ اور جی پی فنڈ(جو کہ میری تنخواہ سے کا ٹا جاتا ہے،لیکن میں نے ابھی تک نکالا نہیں ہے،جو کہ کل رقم 67000روپے ہے،اگر اس سے زیادہ ہو تو بھی وضاحت کیجیئے)تو کیا زکات یا قربانی کے نصاب میں شامل ہے یا نہیں؟

2:اگر میرے پاس ذو الحجہ کے شروع میں اتنی رقم موجود ہو کہ جس سے میں قربانی کرسکتا ہوں،اور عید سے ایک دن پہلے وہ ساری رقم خرچ ہوجائے تو کیا مجھ پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟

3:سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ،میرا ایک چھوٹا ساکاروبار بھی ہے،جس کی مالیت تقریبا 250000روپے ہے،لیکن یہ ساری رقم قرض لی ہے،تو کیا اس کاروبار پر زکات یا قربانی واجب ہوتی ہے یا نہیں؟

4:میری بیوی کے پاس پانچ تولہ سونا ہے اور میں ماہانہ اس کو 500یا 1000جو وہ اپنے بچوں یا اپنے پر خرچ کرتی ہے،تو کیا اس پر زکات یا قربانی واجب ہے یا نہیں؟

5:میری بیوی کے پاس ایک تولہ سونا ہے،اور اس کو میں ماہانہ 1000روپے دیتا ہوں،اب اس کے پاس 3000 روپےہیں تو کیا اس پر زکات یاقربانی واجب ہے یا نہیں؟

جواب

1: واضح رہے کہ جنرل پراویڈنٹ فنڈ میں حکومت مستاجر (Employer) ہے، اور ملازم اجیر (Employee) ہے ، چوں کہ فنڈ کی رقم مستاجر (حکومت) کےپاس ہوتی ہے، اس پر اجیر (ملازم) کی ملکیت نہیں ہوتی، صرف استحقاق ملک ہوتا ہے، لہٰذاوصول ہونے سے قبل  اس پر زکات اور  قربانی فرض نہیں ہے ،نیز  وصول ہونے کے بعد بھی اس پر گذشتہ زمانے کی زکات  اورقربانی فرض نہیں ہے۔

2:واضح رہے کہ قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں، ذمہ میں  واجب الاداء اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت سےزائد اتنا مال یا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی ہو یا سونا چاندی ہو یا کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو) تو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے،صورتِ مسئولہ میں صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے قربانی لازم نہیں۔

3:صورتِ  مسئولہ میں سائل  نے جتنا قرض لیا ہے، اس کی زکات  سائل پر لازم نہیں ہے؛  لہٰذا  قرض کی رقم منہا کر نے کے بعد   اگر سائل کے پاس باقی مال  نصاب کے بقدر  پہنچتا ہے تو اس  مجموعی مال کی ڈھائی فیصد   زکات لازم ہوگی،اور قربانی بھی لازم ہوگی۔

4، 5:سونے کی زکات کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے، اور یہ اس وقت ہے جب کہ سونے کے ساتھ کوئی اور قابلِ زکات مال (چاندی، رقم، مالِ تجارت) موجود نہ ہو،لہٰذا اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم  سونا ہو  اورنقد رقم، مالِ تجارت یا چاندی کچھ بھی موجود نہ ہو تو اس پر زکات واجب نہیں ہوگی۔ لیکن اگر سونے کے ساتھ  کوئی اور قابلِ زکات مال پورے سال موجود ہو، تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کے پاس سونے کے ساتھ اگر بنیادی ضرورت کے خرچے سے زائد چند روپے بھی ہوں تو اس صورت میں وہ شرعاً صاحب نصاب شمار ہو گی، پھر جس دن نصاب کا سال مکمل ہو اس دن بھی اگر اس کے پاس سونے کے ساتھ کچھ نقد رقم ضرورت سے زائد یا چاندی یا مالِ تجارت میں سے کچھ موجود ہو تو اس پر زکات فرض ہوگی، یعنی نقدی اور پانچ  تولہ سونے کی مالیت جمع کرکے کل مال کا ڈھائی فیصد بطور زکات ادا کرنا اس پر لازم ہوگا۔ اور اگر سال پورا ہونے سے پہلے پہلے مذکورہ خاتون نے رقم اپنی ضروریات میں صرف کردی، یہاں تک کہ جس دن سال مکمل ہوا تو اس کے پاس کچھ بھی رقم موجود نہیں تھی تو اس پر زکات فرض نہیں ہوگی۔

اسی طرح اگر عید الاضحیٰ کے ایام میں مذکورہ خاتون کے پاس سونے کے ساتھ  کچھ بھی نقد رقم بنیادی ضرورت سے زائد ہوئی، یا ضرورت و استعمال سے زائد کوئی بھی سامان موجود ہوا اور مجموعے کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس سے زائد ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی۔اور اگر عید الاضحیٰ کے ایام میں سونے کے علاوہ کچھ بھی رقم یا کوئی بھی زائد سامان ملکیت میں نہ ہو تو قربانی واجب نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما سائر الدیون المقر بها، فهي علی ثلاث مراتب عند أبی حنیفة : ضعیف وهو کل دین ملكه بغیر فعله لا بدلا عن شيء نحو المیراث، أو بفعله لا بدلا عن شيء کالوصیة ، أو بفعله بدلاً عما لیس بمال کالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدیة وبدل الکتابة لا زكاة فیه عندہ حتی یقبض نصاباً ویحول علیه الحول."

(كتاب الزكاة، ص:175، ج:1، ط:رشيدية)

وفیه أیضا:

"و هي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، و لايعتبر فيه وصف النماء، و يتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، و وجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الزكاة، الباب الثاني في صدقة الفطر، ج:1، ص:191، ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے :

''وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر).

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

(كتاب الأضحية، ص:312، ج:6، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا(ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة۔ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد."

(كتاب الزكوٰۃ، فصل: مقدار الواجب في زكاة الذهب،ج:2 ،ص:344، ط: المكتبة التوفيقية، مصر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144311102204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں