بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹ، غیبت اور بہتان لگاکراللہ کی رحمت پرآسرالگانے کا حکم


سوال

1۔آج کل معاشرے میں اس آدمی کو کامیاب تصور سمجھا جاتا ہے. جو جھوٹ، غیبت اور بہتان بولنے میں ماہر ہواگر کسی کو ان باتوں کے کرنے سے منع کیا جائے وہ منع ہونے کی بجائے الٹا یہ کہتا ہے کہ یہ تو ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہے اور اگر اسے یہ کہا جائے آخرت میں ہر انسان کا علیحدہ علیحدہ حساب کتاب ہوگا،  ان میں سے اکثریت یہ کہتی ہے"  جو معاشرے کا حصہ ہے تو ہم پیچھے کیوں ہٹیں"  حساب کتاب کے وقت اللہ تعالی ہمیں ان شاء اللہ معاف کر دے گا،   اس بارے میں سول یہ ہے کہ کیا آخرت میں ان کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا، جو اس طرز عمل میں خود کو گھیرے ہوئے ہیں۔ 

2۔ آج کل جو لوگ حکومت کے خزانے کو لوٹ کر کھا رہے ہیں، کیا آخرت کے دن حساب کتاب میں وہ پوری عوام کے مجرم ہوں گے؟کیوں کہ انہوں نے تو عوام کا ہی پیسہ کو کھایا ہوا ہے۔

جواب

1۔واضح رہے کہ  جھوٹ، غیبت اور بہتان کبیرہ گناہوں میں سے ہیں،شریعتِ مطہر ہ  نے ان گناہوں  کے ارتکاب  پر   سزااور وعیدوں کو بیان کیاہیں اور ان سے بچنے  کا تاکیدی  حکم دیاہے ؛ کیوں کہ گناہوں کی نحوست بڑھتے بڑھتے دل  بالکل سیاہ ہوجاتاہے  اس کے بعد و ہ دل صحیح اور غلط کی تمییز  کرنے سے قاصر ہوجاتاہے اور کبھی گناہوں کی کثرت اور اس پر اصرار اور  ڈھٹائی انسان کے ایمان کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوجاتاہے،معاشرے میں  ان گناہوں  کی قباحت کم یاختم ہونے سے  شرعاً   یہ گناہ اور معاصی  کی فہرست سے نکل نہیں سکتے،بلکہ  ان معاصی کے عام ہونے  کے وقت ایک  کلمہ گو مسلمان کی ذمہ داری  اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان  سے مزید اپنے آپ کو دور رکھے  کہ مباداکہیں ایسانہ ہو کہ  مخلوق  کی کثرت سے  سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے وہ  بھی  دیگر  لوگوں  کے ساتھ ا اللہ تعالیٰ  کے  قہروغضب میں    آکر  اس  کی دنیا وعقبیٰ  برباد نہ ہوجائے،باقی یہ ہے کہ جھوٹ،بہتان وغیرہ کی سزااللہ تعالیٰ قیامت والے دن معاف کردیں گےیا نہیں؟ تو  اس بارے میں واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل بادشاہت  اور بے پناہ طاقت وقدرت ہے،وہ کسی کو معاف کرلے اس کی شانِ رحمت سے کچھ بعید نہیں ،لیکن  اللہ تعالیٰ کی وسعتِ رحمت کو دیکھ کرمعاصی کاارتکاب اور اس پر ڈھٹائی اختیارکرنا    بڑی نادانی  اور  ناعاقبت اندیشی  ہے  ؛کیوں کہ مومن کا ایمان ڈر اور خوف کے درمیان ہونا چاہیے کہ اپنے گناہوں پرپشیمان بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا  امیدوار بھی ہو،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  جھوٹ، غیبت اور بہتان کبیرہ گناہوں کے ارتکاب اور ان کے بعد  تسلی بخش کلمات کہنے سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

2۔ واضح رہے کہ حکومت کے پاس موجود خزانے میں جتنی رقم  موجود ہوتی ہے وہ پوری قوم اور ملت  کی امانت ہوتی ہے، کسی کے لیے  اپنی  طے شدہ تنخواہ سے زائد  اس  کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا  شرعاً جائز نہیں ہے،اس قسم کے اجتماعی اموال میں سخت قسم کے احتیاط  کی ضرورت ہے اور اس میں بے احتیاطی حقوق العباد  کو غصب کرنے اور قوم  وملت  کی  امانت میں خیانت اور تعدی   کے زمرے میں آتاہے جس کا  کرنے والا روزِ محشر جواب دہ ہوگا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ﴾ [سورة الغافر، آية:28]

ترجمہ: اللہ تعالی ایسے شخص کو مقصود تک نہیں پہنچاتا جو (اپنی) حد سے گزرجانے والا،  بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔ (بیان القرآن)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’آية الْمنافق ثلاث: وإنْ صام وصلى وزعم أنه مسْلم: إذا حدث كذب، وإذا اؤْتمن خان، وإذا وعد أخْلف.‘‘

(الصحيح لمسلم ، ج:11، ص:406، ط:دار المأمون للتراث - دمشق)

 ترجمہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگرچہ وہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے: (1) ایک یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے، (2)دوسرے یہ کہ جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے اور (3)تیسرے یہ کہ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔

كنزل العمال میں ہے:

عن علي قال: ‌البهتان ‌على ‌البراء أثقل من السموات. الحكيم."

(ج:3، ص: 802، رقم الحدیث:8810،مؤسسة الرسالة)

صحیح البخاری میں ہے:

-حدثنا قتيبة بن سعيد: حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن عمرو بن أبي عمرو، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إن ‌الله ‌خلق ‌الرحمة يوم خلقها مائة رحمة، فأمسك عنده تسعا وتسعين رحمة، وأرسل في خلقه كلهم رحمة واحدة، فلو يعلم الكافر بكل الذي عند الله من الرحمة لم ييأسمن الجنة، ولو يعلم المؤمن بكل الذي عند الله من العذاب لم يأمن من النار."

(ج:5، ص:2374، رقم الحدیث:6104 ،دارابن کثیر)

اس حدیث کے ذیل میں شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"فينبغي أن يكون ‌بين ‌الخوف ‌والرجاء فلا يكون مفرطا في الرجاء بحيث يصير من المرجئة القائلين بأنه لا يضر مع الإيمان شيء ولا في الخوف بحيث يكون من الخوارج والمعتزلةالقائلين بتخليد صاحب الكبيرة إذا مات من غير توبة في النار، بل يكون وسطا بينهما، كما قال الله تعالى: يرجون رحمته ويخافون عذابه."

(باب الصبر عن  محارم اللہ ،ج:23، ص: 67، ط:دار إحياء التراث العربي، ودار الفكر۔ بيروت)

اللہ تبارک وتعالی  کا ارشا ہے :

"{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ }." [الانفال:58]
'' بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ ''

حدیث شریف میں ہے:

 حدثنا آدم : حدثنا شعبة: حدثنا أبو جمرة قال: سمعت زهدم بن مضرب قال: سمعت عمران بن حصين رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «خيركم قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، قال عمران: لا أدري أذكر النبي صلى الله عليه وسلم بعد قرنين أو ثلاثة، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ‌إن ‌بعدكم ‌قوما ‌يخونون ولا يؤتمنون، ويشهدون ولا يستشهدون، وينذرون ولا يفون، ويظهر فيهم السمن."

(صحيح البخاري،ج:3، ص: 171، رقم الحدیث:2651 ، ط:دارطوق النجاة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں