بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی اذان کے بعد غیر مسلم ملازم کو دکان پر بیٹھانے سے حرمت بیع کا حکم


سوال

غیر مسلم ملازم کو دکان پر بٹھاکر جمعہ پڑھنا کیسا ہے؟ یعنی ممانعت بیع کا جو حکم ہے وہ اب بھی ہے یا ختم ہو گیا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں پہلی اذان کے بعد کاروبار ممنوع ہے چاہے خود کرے یا کسی اور ذریعے   سے ہو؛    لہذا  اذانِ  اول کے بعد بیع کو ترک کرکے جمعہ کی طرف متوجہ ہوجانا چاہیے۔ کسی غیر مسلم ملازم کو دکان پر بٹھانا  درست نہیں، اس  لیے کہ قرآنِ  کریم  میں بیع کو ترک کرنے کا حکم ہے جو  شراء کے ترک کا سبب بنتا ہے، اگر غیر مسلم ملازم کو دکان پر بٹھا کر  دکان کھلی رکھیں گے تو اس سے دیگر مسلمان  ترکِ سعی کے مرتکب ہوں گے، لہذا غیر ضروری اور غیر شرعی  امر کے  لیے  حیلے کرنا درست نہیں۔

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"قوله: وإذا أذن المؤذن يوم الجمعة الأذان الأول ترك الناس البيع والشراء وتوجهوا إلى الجمعة) قدم ذكر البيع على ذكر الشراء؛ لأن الإيجاب مقدم على القبول والمراد من البيع والشراء ما يشغلهم عن السعي حتى إنه إذا اشتغل بعمل آخر سواه يكره أيضا ولا يكره البيع والشراء في حالة السعي إذا لم يشغلہ."

(باب صلاة الجمعة،ج1،ص:92،ط: الخيرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ووجب سعي إليها وترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزرا (بالأذان الأول) في الأصح .... وفی الرد: (قوله وترك البيع) أراد به كل عمل ينافي السعي وخصه اتباعا للآية نهر (قوله: ولو مع السعي) صرح في السراج بعدم الكراهة إذا لم يشغله بحر وينبغي التعويل على الأول نهر."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة،ج:2،ص:161، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144502101811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں