بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جاب کی وجہ سے تراویح کی نماز چھوڑنا یا انفرادی پڑھنے کا حکم


سوال

اگر ایک طالب علم رات کو جاب پر اور دن میں یونیورسٹی جاتا ہے تو وہ تراویح کی نماز کیسے ادا کرے،کیا اس کے لیے کوئی رخصت ہے ؟کیونکہ اس کے روزمرہ اوقات بہت مشکل ہوتے ہیں اور دن کا روزہ بھی رکھتا ہے اور باقی عبادات کی پابندی بھی کرتا ہے، تو کیا رات کی ملازمت کی وجہ سے تراویح چھوڑ سکتے ہیں ؟جب کبھی وقت ملتا ہے یا چھٹی ہوتی ہے تو وہ باقاعدہ تراویح ادا کرتا ہے مگر ان مصروفیات کی وجہ سے تراویح پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے ، برائے مہربانی تفصیل سے جواب دیں ۔

جواب

تراویح کی نماز سنتِ  مؤکدہ ہے، اور تراویح میں جماعت بھی سنت ہے اور کسی شرعی عذر کے  بغیر جماعت کو ترک کرنے والا گناہ گار ہو گا؛  لہذا ملازمت کی وجہ سے تراویح کی نماز  باجماعت کو   ترک کرنا، یا بالکل تراویح ہی نہ پڑھنا درست نہیں ،  بلکہ  کوشش کر کے جماعت کے ساتھ پڑھنے کا  اہتمام کیا جائے، جماعت کے ساتھ پڑھنا زیادہ ثواب کا باعث ہے،  رمضان المبارک   جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے  گویانیکیوں کا موسم ہے جس میں  نیک اعمال کا ثواب  عام ایام کی بنسبت زیادہ ہوجاتاہے،  اس میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھ کر زیادہ ثواب حاصل کرنے کے  بجائے اسے ترک کر نا محرومی ہے،  ایسا نہیں کرنا چا ہیے، تاہم اگر  تروایح  کی نماز جماعت کے ساتھ نہیں  پڑھی ، بلکہ انفرادی طور پر پڑھ لی تو  تروایح کی سنت ادا ہو جائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے  محرومی ہوگی،  لہذا آپ ایسی کوئی ترتیب بنائیں جس میں آپ اپنے دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ تراویح کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرلیں،اور اگر مصروفیات کے ساتھ تراویح پڑھنا مشکل ہے تو رمضان المبارک کے مہینہ کے لیے رات کی ملازمت کی چھٹی لے لے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم.

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية، وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا.اهـ."

 (کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل،ج:2،ص:45، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں