بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کے لیے غیر اسلامی ممالک میں جانا


سوال

کیا کام کے لیے اسلامی ملک کو چھوڑ کے غیر اسلامی ملک میں جانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بلا کسی ضرورت،  حاجت اور شدید مجبوری کے  محض  دولت کے حصول اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے یا اپنے معاشرے میں معزز بننے اور دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی جتلانے  کے لیے مسلم ملک کو چھوڑ کر  غیر مسلم ممالک میں مستقل رہائش اختیار کرنا اور دار الحرب کی شناخت و قومیت کو افضل سمجھتے ہوئے دار الاسلام کی شناخت و قومیت پر ترجیح دے کر غیر مسلم ملک کی شہریت و قومیت حاصل کرنا  جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس صورت میں آدمی محض دنیاوی لالچ کی وجہ سے اپنے دین و ایمان کو اور اپنے دینی تشخص کو داؤ پر لگاتا ہے اور عام طور سے تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جو لوگ صرف ان اغراض کی وجہ سے غیر مسلم ممالک جاتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ ان ممالک میں موجود گناہوں اور   منکرات کے سمندر میں ڈوب کر (اگر ایمان سے محروم نہ بھی ہوں)  کم از کم دینی احکام اور اسلامی تشخص  سے ضرور محروم ہو جاتے ہیں،  اور رفتہ رفتہ وضع قطع (لباس، حلیہ، شکل و صورت) اور بود و باش میں مکمل طور پر کفار کی مشابہت  نہ صرف اختیار کرتے ہیں، بلکہ کفار کی مشابہت کو اپنے لیے  باعثِ فخر سمجھتے ہیں،  جو کہ صریح حرام ہے۔

مزید یہ کہ اگر بیوی بچے  بھی ساتھ ہوں تو خاندان کا سربراہ ہونے کی وجہ سے ان کی دینی تربیت کا انتظام نہ کرنے  کے باعث ان کی بے دینی کا گناہ اور وبال بھی اسی شخص پر پڑے گا، چنانچہ اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت  کے بغیر کفار و مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث  میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اسی کے مثل ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی آگ اور کفر کی آگ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، تم یہ امتیاز نہیں کر سکو گے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرکین کی آگ ہے۔

البتہ اگر کوئی مسلمان کسی شدید عذر و مجبوری کی وجہ سے غیر مسلم ممالک میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے، مثلاً بغیر کسی جرم کے اپنے ملک میں مظالم اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑ رہی ہوں اور ان مظالم سے بچنے کی کوئی اور صورت نہ ہو یا کوئی شخص شدید معاشی بحران کا شکار ہو اور کوشش کے باوجود اسلامی ملک میں معاشی وسائل دست یاب نہ ہوسکیں  یا کوئی شخص غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچانے اور غیر مسلم ملک میں مقیم مسلمانوں کو دینی احکامات کی تعلیمات دینے اور  دینِ اسلام پر ان کی ثابت قدمی برقرار رکھنے کی نیت سے غیر مسلم ممالک میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ  اسے اس بات کا مکمل اعتماد ہو کہ وہ غیر مسلم ملک میں شرعی احکامات کی مکمل پیروی کرکے اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور اس ملک میں موجود منکرات اور فحاشی کے سمندر میں  اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچا سکتا ہے، اسی طرح اگر بیوی بچے ساتھ ہوں تو ان کے متعلق یہ اطمینان ہونا بھی شرط ہے۔

سنن أبي داود ت الأرنؤوط (4/ 413):

"عن سمرة بن جندب: أما بعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله" 

فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

غیر مسلم ملک میں رہائش منتقل کرنا


فتوی نمبر : 144107201390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں