بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جاب کرنے والی عورت کا نفقہ


سوال

 چند سال پہلے کسی جگہ پر یہ بات پڑھی تھی کہ جاب کرنے والی عورت کا نان و نفقہ مرد کہ زمہ نہیں رہتا تنخواہ کی صورت میں اس عورت کو آمدنی ہوتی ہے وہ مرد کی ہی تصور کی جائے گی تو اس تناظر میں میرا سوال ہے:

میری شادی کو 14 سال کا عرصہ ہو گیا ہے،  شادی سے پہلے میری بیوی ایک سکول میں جاب کرتی تھی ، شادی کے بعد اس نے مجھ سے جاب کے متعلق پوچھا تو میں نے اسے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے میں تمام ضروریات الحمداللہ پوری کر سکتا ہوں، اس نے کہا کہ بچوں کے ایگزام میں تو میں جانا چاہتی ہوں،  میں نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد اسکول مینجمینٹ کو بتا دینا کہ میں آگے جاب نہیں کروں گی، تو  اس نے جواب دیا کہ اگر آپ منع بھی کرتے تو میں نے جانا ہی جانا تھا ، میں خاموش ہو گیا ،  ایگزام ختم ہوگئے تو اس کے بعد میں نے اسے پھر سے کہا کہ اب جاب چھوڑ دو،  لیکن اس نے منع کر دیا کہ جاب میں نے کرنی ہے، آپ رکھنا چاہتے تو ٹھیک ہے،  ورنہ میں اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی ہوں، اس کے بعد سے چودہ سال سے میں نے اسے دوبارہ نہیں کہا،  نا ہی اس کی تنخواہ سے جو کہ ماہانہ 20000 روپے ملتی اس کو اس میں سے ایک پیسہ بھی نہیں کبھی اس سے لیا،  نا ہی کبھی اس سے پوچھا کہ کہا خرچ کرتی ہو ۔

میرے گھر میں بیوی کے علاوہ میرے دو بچے ماں اور بہن ہیں،  میں ماہانہ گھر میں تیس ہزار روپے خرچہ دیتا ہوں اور باقی کے سب خرچ بھی میں ہی کرتا ہوں، چودہ سال میں بیوی نے اپنے خرچ کے لیے نا مجھ سے مانگے نا ہی میں  نے سپیشل طور اسے الگ سے کوئی خرچہ دیا، گھر میں جو خرچہ دیتا اس میں سے اگر اس کو ضرورت پڑے تو امی سے لے سکتی ہے۔

میں یہ پوچھنا  چاہتا ہوں کہ کیا اس صورت میں جب میری مرضی کے بغیر جاب کرتی ہے اور  اس کی تمام تنخواہ مکمل طور پر اس کے پاس ہی ہوتی ہے تو اس صورت میں کیا مجھ پر اس کا نان و نفقہ لازم ہوتا ہے یا اس کو ملنے والی تنخواہ میری طرف سے ہی سمجھی جائے گی ؟

جواب

واضح رہے کہبعض لوگ بیوی کا نفقہ اس صورت میں واجب سمجھتے ہیں جب کہ وہ نادار (غریب) ہو  اور  اگر وہ مال دار ہو یا نوکری کرتی ہو  تو اس صورت میں اس کا نفقہ واجب نہیں سمجھتے۔ سویہ بالکل غلط ہے ،بیوی کا نفقہ دونوں حالتوں میں  شوہر پر واجب ہوتا ہے۔

            لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلکےذمہ بیوی کا نان نفقہ لازم اور واجب ہے۔باقی  سائل کی بیوی کا سائل کی رضامندی اور اجازت کے بغیر  جاب پر جانا  شرعاًناجائز اور گناہ ہے ۔ تاہم سائل کی بیوی کے اصرار اور ضد پر جب سائل نے مصلحتًا  خاموشی اپنائی تو اس دوران جو کچھ بیوی نے کمایا وہ بیوی کی ملکیت ہے۔ سائل کے ذمہ بیوی کا نان و نفقہ لازم ہے، تا وقتیکہ وہ نافرمان اور ناشزہ ہو کر گھر سے نہ چلی جائے۔

وفی الفتاوی الھندیۃ لمولانا نظام وجماعتہ :

"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي خان سواء كانت حرة أو مكاتبة كذا في الجوهرة النيرة تكلموا في تفسير البلوغ مبلغ الجماع والمختار أنها ما لم تبلغ تسعا لم تبلغ مبلغ الجماع...الخ"

(كتاب الطلاق ،الباب السابع عشر في النفقات ،فصل في نفقة الزوجة،ج:1،ص:544،ط:ماجدية)

وفی الفتاوی الھندیۃ لمولانا نظام وجماعتہ :

"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه بخلاف ما لو امتنعت عن التمكن في بيت الزوج لأن الاحتباس قائم....الخ"

(كتاب الطلاق ،الباب السابع عشر في النفقات ،فصل في نفقة الزوجة ،ج:1،ص:545،ط:ماجدية)

وفی الدرالمختار للحصکفی ؒ:

"وحقه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به"

وفی ردالمحتار لابن عابدین ؒ:

"(قوله: في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به ط"

(کتاب النکاح ،باب القسم بین الزوجات،ج:۳،ص:۲۰۸،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں