بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

جو شخص صاحبِ ترتیب نہ ہو اس کے لیے قضاء نمازوں میں ترتیب ضروری نہیں


سوال

میں نے اپنی قضاء نمازوں کا حساب لگایاتو وہ ڈھائی سال کی بنی، 2014، 2015 اور 2016 کا آدھا سال، اب ان کی ادا کی صورت میں نے یہ بنائی کہ پہلے 2016 کی قضاء نمازیں ادا کیں، پھر 2014 کی، پھر 2015 کی، اب سوال یہ ہے کہ اس طرح قضاء نمازیں ادا ہو گئیں؟

جواب

واضح رہے کہ جس انسان کی زندگی میں کبھی چھ نمازیں فوت نہ ہوئی ہوں اس کو صاحبِ ترتیب کہا جاتا ہے اور صاحبِ ترتیب کے لیے ترتیب سے نماز پڑھنا ضروری ہے، بے ترتیبی سے نماز پڑھنے سے نماز درست نہیں ہوتی، اور جس شخص کی زندگی میں کبھی چھ نمازیں یا اس سے زائد قضاء ہو گئی ہوں وہ صاحبِ ترتیب نہیں رہتا اور اس کے لیے نمازوں میں ترتیب رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔

اب صورتِ مسئولہ میں چوں کہ آپ کی نمازیں چھ سے زائد قضاء ہو گئی تھیں؛ جس کی وجہ سے آپ صاحبِ ترتیب نہیں رہے اور ترتیب سے قضاء کرنا آپ پر لازم نہ تھا؛ اس لیے جس ترتیب سے آپ نے نمازیں قضاء کی ہیں، وہ درست ہو گئیں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ويسقط الترتيب عند كثرة الفوائت وهو الصحيح، هكذا في محيط السرخسي وحد الكثرة أن تصير الفوائت ستا بخروج وقت الصلاة السادسة ...

وكثرة الفوائت كما تسقط الترتيب في الأداء تسقط في القضاء حتى لو ترك صلاة شهر ثم قضى ثلاثين فجرا ثم ثلاثين ظهرا ثم هكذا صح، هكذا في محيط السرخسي."

(کتاب الصلاۃ ، الباب الحادی عشر ، جلد : 1، صفحه : 123 ، طبع : دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں