بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جو شخص بُرائی کو دیکھنے کے بعد دل سے بھی اس کو بُرا نہ جانے تو کیا ایسا شخص مسلمان نہیں رہتا؟


سوال

فضائلِ اعمال میں مسلمانوں کی موجودہ پستی کے واحد علاج میں مسلم شریف کی ایک حدیث لکھی ہوئی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے اگر تم برائی کو ہوتے ہوئے دیکھو تو اس کو اپنے ہاتھ سے روکو اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے انکار کرو اور اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اس کو برا جانو مگر اس کے بعد ایمان کی سرحد ختم ہو جاتی ہے، حتی کہ اب رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہو سکتا۔

کیا اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جو بندہ برائی کو دل سے برا نہ جانے وہ مسلمان نہیں؟ اس حدیث کی وضاحت مطلوب ہے، کیوں کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر تو بہت سے مسلمان جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، مگر برائی کو ہوتا ہوا دیکھ کے دل سے بھی اس کو برا نہیں سمجھتے تو ان کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی کسی کو برائی کرتے ہوئے دیکھے تو اس پر اپنی استطاعت کے مطابق اس کو روکنا (اگر ہاتھ سے استطاعت ہو تو ہاتھ سے ورنہ زبان سے ورنہ دل سے) لازم ہے، اور دل سے بُرا جاننا یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے، اگر کوئی شخص کسی بُرائی کو دل سے بھی بُرا نہ سمجھے تو اسے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے،  لہذا اگر کوئی کسی کو بُرائی کرتے ہوئے دیکھے ایسی بُرائی جس کو شریعت مطہرہ نے بُرا قرار دیا ہواور قدرت ہوتے ہوئے اس بُرائی کو اپنے دل میں  بُرابھی نہیں سمجھتا اور اس پر خوش ہوتاہے، تو ایسا شخص کافر ہوجاتا ہے اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، لیکن اگر وہ قدرت کے باوجود اس بُرائی کو بُرا تو نہیں سمجھتا، لیکن اس پر خوش بھی نہیں ہوتا، تو ایسا شخص کافر نہیں ہوگا، بلکہ ایسا شخص مسلمان ہی رہےگا، کیوں کہ وہ اپنی اس بے حسی اور قدرت کے باوجود بُرا نہ جاننے کی وجہ سے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا، اور گناہ کبیرہ یا ترکِ عمل کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوجاتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں ایمان سے مراد اسلام ہے، اور اسلام ظاہری اعمال کا نام ہے، اور اعمال کے چھوڑنے سے آدمی کافر نہیں بن جاتا، تو مطلب یہ ہےکہ ظاہرِ اعمال کے اعتبار سے بُرائی کو بُرا جاننے کے مذکورہ  یہ تین مراتب ہیں، لہذا ان تین مراتب کے علاوہ بُرائی کو بُرا جاننے کے مزید پھرکوئی اور  مرتبہ باقی نہیں رہ جاتا، اگر استطاعت کے باوجود کسی نے اس میں کوتاہی کرکے اس مرتبہ کو چھوڑ دیا، تو اس مرتبہ کو چھوڑنے اور اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوگا، بلکہ مؤمن ہی رہےگا، البتہ گناہ گار ضرور ہوگا، تو خلاصہ یہ کہ بُرائی کو دیکھ کر بُرا نہ جاننے کی صورت میں  ترکِ عمل (کہ بُرا نہیں جاننا) پایا گیا اور اس کی وجہ سے گناہ کا مرتکب ہوا، اور یہ بات ذکر کردی گئی کہ ان دونوں (ترکِ عمل، گناہ) کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوجاتا۔ نیز یہ کہ یہ حدیث وعیدِ شدید پر محمول ہے کہ مسلمان کی شان یہ ہرگز نہیں ہونی چاہیے  کہ اس کے دل سے بُرائی کو بُرا جاننے کا احساس بھی ختم ہوجائے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «‌من ‌رأى ‌منكم ‌منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان».

(وذلك) أي: الإنكار بالقلب وهو الكراهية (أضعف الإيمان) أي: شعبه أو خصال أهله، والمعنى أنه أقلها ثمرة، فمن غير المراتب مع القدرة كان عاصيا، ومن تركها بلا قدرة أو يرى المفسدة أكثر ويكرر منكرا لقلبه، فهو من المؤمنين. وقيل: معناه وذلك أضعف زمن الإيمان، إذ لو كان إيمان أهل زمانه قويا لقدر على الإنكار القولي أو الفعلي، ولما احتاج إلى الاقتصار على الإنكار القلبي، أو ذلك الشخص المنكر بالقلب فقط أضعف أهل الإيمان، فإنه لو كان قويا صلبا في الدين لما اكتفى به، ويؤيده الحديث المشهور: " «أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر» " وقد قال تعالى: {ولا يخافون لومة لائم} [المائدة: 54] هذا وقد قال بعض علمائنا: الأمر الأول للأمراء، والثاني للعلماء، والثالث لعامة المؤمنين. وقيل: المعنى إنكار المعصية بالقلب أضعف مراتب الإيمان، لأنه إذا رأى منكرا معلوما من الدين بالضرورة فلم ينكره ولم يكرهه، ورضي به واستحسنه كان كافرا، ولعل الإطلاق الدال على العموم لإفادة التهديد والوعيد الشديد."

(كتاب الآداب، باب الأمر بالمعروف، ج: 8، ص: 3208، ط: دار الفكر)

التعيين فی شرح الأربعين میں ہے:

"فإن قيل: إذا رضي بالمنكر بقلبه ولم يكره هل يكفر بذلك أم لا؟

قلنا: إن رضيه معتقدا جوازه فهذا تضمن (أ) تكذيب الشرع في تحريمه وهو كفر، وإن رضي به لغلبة الهوى والشهوة مع اعتقاده تحريمه فهو فسق لا كفر."

(‌‌الحديث الرابع والثلاثون، ج: 1، ص: 291، ط: مؤسسة الريان (بيروت - لبنان)

شرح الأربعين النوویۃ لابن دقيق العيد میں ہے:

"وقوله: وذلك أضعف الإيمان قد ذكر أن معناه أقله ثمرة. وقد جاء في رواية أخرى1: "وليس وراء ذلك من الإيمان حبة خردل" أي لم يبق وراء ذلك مرتبة أخرى والإيمان في هذا الحديث بمعنى الإسلام."

(‌‌النهي عن المنكر من الإيمان، ص: 115، ط: مؤسسة الريان)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وفي البزازية ‌استماع ‌صوت ‌الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه»... أو لتغليظ الذنب كما في الاختيار أو للاستحلال كما في النهاية.

(قوله أو لتغليظ الذنب) عطف على قوله أي بالنعمة يعني إنما أطلق عليه لفظ الكفر تغليظا اهـ ح."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 350،349، ط: سعيد)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وفي الحديث دليل لمن قال: لا يقتل أحد دخل الإسلام بشيء سوى ما عدد كترك الصلاة على ما هو المذهب عندنا. قال بعض شراح الأربعين: وخالفه الجمهور لقوله عليه الصلاة والسلام: " «من ترك الصلاة متعمدا فقد كفر» ". أي ‌استحق ‌عقوبة ‌الكفر كذا فسره الشافعي. قلت: الحديث السابق نص في الحصر المفيد لنفي قتله، فلا يثبت إثباته بمثل هذا الاستدلال مع وجود غيره من الاحتمال، فإنه فسر بأنه قارب الكفر، أو شابه عمل الكفرة، أو يخشى عليه الكفر، أو المراد بالكفر الكفران، أو محمول على ما إذا استحل تركه أو نفى فرضيته، أو على الزجر الشديد والتهديد والوعيد، كما في قوله تعالى بعد إيجاب الحج: {ومن كفر فإن الله غني عن العالمين} [آل عمران: 97] حيث وضع قوله: كفر موضع من لم يحج."

(كتاب القصاص، ج: 6، ص: 2258، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله قال في البحر إلخ) سبب ذلك ما ذكره قبله بقوله وفي جامع الفصولين، روى الطحاوي عن أصحابنا لا يخرج الرجل من الإيمان إلا جحود ما أدخله فيه ثم ما تيقن أنه ردة يحكم بها وما يشك أنه ردة لا يحكم بها إذ الإسلام الثابت لا يزول بالشك مع أن الإسلام يعلو وينبغي للعالم إذا رفع إليه هذا أن لا يبادر بتكفير أهل الإسلام مع أنه يقضي بصحة إسلام المكره. أقول: قدمت هذا ليصير ميزانا فيما نقلته في هذا الفصل من المسائل، فإنه قد ذكر في بعضها إنه كفر مع أنه لا يكفر على قياس هذه المقدمة فليتأمل اهـ ما في جامع الفصولين وفي الفتاوى الصغرى: الكفر شيء عظيم فلا أجعل المؤمن كافرا متى وجدت رواية أنه لا يكفر اهـ وفي الخلاصة وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه التأويل ح وفي التتارخانية: لا يكفر بالمحتمل، لأن الكفر نهاية في العقوبة فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اهـ والذي تحرر أنه لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير فيها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها اهـ كلام البحر باختصار."

(‌‌كتاب الجهاد، ‌‌باب المرتد، ج: 4، ص: 224،223، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومن يرضى بكفر نفسه فقد كفر، ومن يرضى بكفر غيره فقد اختلف فيه المشايخ رحمهم الله تعالى في كتاب التخيير في كلمات الكفر إن رضي بكفر غيره ليعذب على الخلود لا يكفر، وإن رضي بكفره ليقول في الله ما لا يليق بصفاته يكفر، وعليه الفتوى كذا في التتارخانية."

(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، مطلب في موجبات الكفر، ج: 2، ص: 257، ط: دار الفكر)

شرح العقائد النسفیہ میں ہے:

"أن الكبيرة التي هي غير الكفر لا تخرج العبد المؤمن من الإيمان لبقاء التصديق الذي هو حقيقة الإيمان... ولا تدخله أي العبد المؤمن في الكفر... ومجرد الإقدام علی الكبيرة؛ لغلبة شهوة أو حمية أو أنفة أو كسل، خصوصاً إذا اقترن به خوف العقاب ورجاء العفو و العزم علی التوبة، لا ينافيه. نعم إذا كان بطريق الاستحلال والاستخفاف كان كفراً؛ لكونه علامة للتكذيب. ولا نزاع في أن من المعاصي ما جعله الشارع أمارةً للتكذيب، وعلم كونه كذلك بالأدلة الشرعية، كسجود الصنم وإلقاء المصحف في القاذورات والتلفظ بكلمات الكفر، و نحو ذلك مما ثبت بالأدلة أنه كفر."

(بيان أن الكبيرة لا تخرج عن الإيمان، ص: 276۔278، ط: بشري)

مظاہرِ حق میں ہے:

بعض حضرات نے حدیث کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ یہ چیز یعنی کسی برائی کو دیکھ کر محض دل میں اس کو برا سمجھنے پر اکتفا کرلینا ایمان کے مراتب میں سب سے کمزور مرتبہ ہے کیوں کہ اگر کوئی مسلمان ایسی چیز دیکھے کہ جس کا دینی نقطہ نظر سے برا ہونا قطعی طور پر ثابت و ظاہر ہو اور وہ اس چیز کو برا بھی نہ سمجھے بلکہ اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرےاور اس کو اچھا جانے تو مسلمان نہیں رہےگابلکہ کافر ہوجائے گا۔

(کتاب الآداب، امر بالمعروف کا بیان، ج: 4، ص: 605، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100923

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں