بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جوشخص سلام کاجواب نہ دیتاہواس کو سلام کرنے حکم


سوال

ایسے شخص کو سلام کرنا کیساہے ؟ جوسلام کا جواب نہ دیتاہو جب کہ وہ مسلمان ہے۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سلام کرنا سنت ہے، اور اس کا جواب دینا واجب ہے، لیکن بعض مواقع ایسے ہیں جن میں سلام نہیں کرنا چاہیے، اگر ان مواقع میں سے کسی موقع میں مشغول شخص کو کوئی سلام کرے تو اس کے ذمے جواب دینا واجب نہیں ہوتا، لیکن اگر ایسا کوئی موقع نہ ہوتو سلام کرنا سنت ہے،آپ سلام کریں  امید ہے کہ سامنے والے کا دل نرم ہو گا،  حدیث شریف میں ہے کہ  اس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے،لیکن مذکورہ مواقع کے علاوہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہوکہ وہ سلام کاجواب دیتاہی نہیں تب بھی اس کو سلام کرناسنت ہے اوراس پر  سلام کا جواب دینا واجب ہے اگر مذکورہ شخص سلام کا جواب نہ دےتو  وہ خود گناہ گارہوگا،خلاصہ یہ ہے کہ سلام کی سنت کو جاری رکھے ،چاہیے وہ سلام کا جواب دے یانہ دے ،جواب دے گا تو ثواب ملے گا ورنہ گنہگار ہوگا   ۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو معاوية، ووكيع، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تدخلون الجنة حتى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتى تحابوا، أولا أدلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم؟ ‌أفشوا السلام بينكم."

(كتاب اإيمان باب بيان أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون، وأن محبة المؤمنين من الإيمان، وأن إفشاء السلام سببا لحصولها،ج:1،ص:134،ط:بشرى)

ترجمہ:"ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم بہشت میں نہ جاؤ گے، جب تک ایمان نہ لاؤ گے اورایماندار نہ بنو گے،جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو گے اور میں تم کو وہ چیز نہ بتلا دوں جب تم اس کو کروتو تم آپس میں محبت کرنے لگو سلام کو آپس میں رائج کرو۔"

(صحیح مسلم مع مختصر شرح نووی،ج:1-2،ص:133،ط:مکتبہ اسلامیہ لاہور)

علامہ شامی رحمہ اللہ اور دیگر فقہاءِ کرام نے وہ جگہیں لکھی ہیں جن میں سلام نہیں کرنا چاہیے، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

مثلاًً: قضاءِ حاجت یا وضو میں مشغول شخص، ذکر، نماز یا بلند آواز سے تلاوت میں مشغول شخص،  اذان یا اقامت یا خطبہ جمعہ و عیدین کے دوران، یا کوئی بھی بیان و وعظ کرنے والے کو سلام کرنا، یا علمی مذاکرے میں مشغول شخص ، یا تدریس کے دوران شاگرد یا غیر متعلق شخص کا مدرس کو سلام کرنا، یا بھکاری کا سلام کرنا یا مفتی اور قاضی اور مدرس کو اس کی مسند پر، یا کھانے میں مشغول شخص کو، یا دو شخص جو آپس میں اس انداز سے گفتگو کررہے ہوں کہ تیسرے شخص کے ان کی گفتگو میں شامل ہونے اور سلام کرنے سے انہیں تکلیف یا حرج ہو وغیرہ۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي شرح الشرعة: صرح الفقهاء بعدم وجوب الرد في بعض المواضع: القاضي إذا سلم عليه الخصمان، والأستاذ الفقيه إذا سلم عليه تلميذه أو غيره أوان الدرس، وسلام السائل، والمشتغل بقراءة القرآن، والدعاء حال شغله، والجالسين في المسجد لتسبيح أو قراءة أو ذكر حال التذكير. اهـ. وفي البزازية: لا يجب الرد على الإمام والمؤذن والخطيب عند الثاني، وهو الصحيح اهـ وينبغي وجوب الرد على الفاسق لأن كراهة السلام عليه للزجر فلا تنافي الوجوب عليه تأمل. هذا، وقد نظم الجلال الأسيوطي المواضع التي لا يجب فيها رد السلام ونقلها عنه الشارح في هامش الخزائن فقال:

رد السلام واجب إلا على … من في الصلاة أو بأكل شغلا

أو شرب أو قراءة أو أدعيه … أو ذكر أو في خطبة أو تلبيه

أو في قضاء حاجة الإنسان … أو في إقامة أو الآذان

أو سلم الطفل أو السكران … أو شابة يخشى بها افتتان

أو فاسق أو ناعس أو نائم … أو حالة الجماع أو تحاكم

أو كان في الحمام أو مجنونا … فواحد من بعدها عشرونا."

(كتاب الصلاة،‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،مطلب المواضع التي لا يجب فيها رد السلام،ج:1،ص:618،ط:سعيد)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"سوال :علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے کو السلام علیکم کہے اور دوسرا عالم ہوتے ہوۓ بھی سلام کا کوئی جواب نہ دے اور یہ تین بار السلام علیکم کہے اور مولوی ہوتے ہوۓ دوسرا کوئی جواب نہ دے۔کیا فرماتے ہیں علماء کہ اس کے ساتھ کیا مراسم ہونے چاہئیں کتاب وسنت سے بتایا جاۓ ۔

جواب :سلام کا جواب دینا واجب ہے پس اگر اس شخص نے بلاعذر جواب نہیں دیا گنہگار ہے ،قرآن شریف میں ہے واذا حبيتـم بتحية فحيوا باحسن منهااوردوها الأية البتہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص تلاوت کر تا ہو یا اور کسی دینی درس میں مشغول ہو یا کھانا کھا تا ہو وغیرہ ذلک تو وہ اگر سلام کا جواب نہ دے تو گنہگار نہیں ہوگا۔ لہذا اس شخص نے اگر کسی کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے جواب نہیں دیا ہے تو گنہگار نہیں ہے

اور اگر فارغ وقت میں اس کو کسی نے سلام کیا ہو اور اس نے سن کر جواب نہ دیا ہوتو گنہگار ہوگا ۔"

(باب الحظروالاباحہ ،ج:10،ص:387،ط:جمعیت پبلیکیشنر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403100343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں