بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جو شخص ہر مکتبہ فکر کو سننے کی ترغیب دے اس کی بات سننے کا حکم


سوال

جو شخص دیوبندی عالم ہو اورسوشل میڈیا پر یہ کہتا ہوکہ کہ بریلوی بھی صحیح ہے، یہ مودودی بھی صحیح ہے، غیر مقلدین بھی صحیح ہے، ذاکر نائک بھی صحیح ہیں، شیعہ بھی صحیح ہے، یعنی ان لوگوں کے تاثرات پیش کرتا ہو اور ان کو معتبر قرار دینے کی سعی کرتا ہو جن کو اہل السنة والجماعت دیوبندی علماءکرام نے گمراہ کہہ دیا ہو،  تو اس کے بیانات سننا کیسا ہے؟

جواب

یہ بات واضح ہے کہ آج کل سوشل میڈیا پر دینی رہنمائی کا انحصار سمجھنے یا دینی رہنمائی میں سہولت پسندی برتنےسے عام فضاء یوں بن گئی ہے کہ تقویٰ وصلاح کا معیار سلف صالحین کی اتباع کی بجائے عوامی مقبولیت قرار پارہا ہے ، علمائے ربّانیین جن کی زندگیاں علم وعمل میں بیت گئیں ، ان کو بے وقعت اور ان کے علم کو غیر معیاری قرار دیا جارہا ہے، جو بھی اسکرین پر آئے، تو وہ بہت بڑا عالم کہلارہا ہے ، اس کی اُلٹی سیدھی باتیں حقیقی علم سمجھی جا رہی ہیں ،جو کہ نہایت افسوس اور فکر کی بات ہے،ایسے لوگوں کی بیان کردہ دینی باتیں محض ایک ملغوبہ ہی رہیں گی، حدیث شریف میں ایسے لوگوں سے علم حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے، جیسے کہ مروی ہے:

التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد میں ہے:

"قال أبو هريرة: "إن هذا العلم دين فانظروا عمن تأخذونه".

(باب الالف، ج:1، ص:45، ط:مؤسسة القرطبة)

ترجمہ:" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ یہ (قرآن و حدیث کا)علم دین ہے، لہذا پہلے دیکھ لو کہ تم کس سے اسے حاصل کر رہے ہو۔"

صورتِ مسئولہ میں ہرایسا شخص جو ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد (خواہ وہ غیرشرعی نظریات وعقائد کا حامل ہی کیوں نہ ہو) کو درست کہے ، اور ان کے بیانات سننے کی ترغیب بھی دے(جیسے کہ سوال سے بھی ظاہر ہورہا ہے) تو  ایسے آدمی کے بیانات کو نہیں سننا چاہیے تا کہ گمراہی کا خطرہ نہ ہو۔

واضح رہے کہ حق اور باطل دونوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے، اس سے حق کا نقصان ہوتا ہے اور باطل کا فائدہ ہوتا ہے، جیسا کہ پیشاب اور دودھ کو ملایا نہیں جا سکتا اس سے پیشاب کا فائدہ ہو گا اور دودھ ناپاک اور حرام ہونے کی وجہ سے دودھ کا نقصان ہو گا، اس لیے ان میں تمییز کرنا ضروری ہے۔

فتح الباری لابن حجر العسقلانی میں ہے:

"لم يزل أمر بني إسرائيل معتدلا حتى نشأ فيهم أبناء سبايا الأمم فأفتوا بالرأي فضلوا وأضلوا أخرجه البزار".

(کتاب الفتن، قوله باب ما يذكر من ذم الرأي، ج:13، ص:285، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں